بونیر میں بم دھماکہ، قومی وطن پارٹی کے لیڈر سمیت تین افراد ہلاک
22 فروری 2014پولیس کے مطابق صوبے خیبر پختونخواہ کے ضلع بونیر میں سڑک کنارے نصب کیے جانے والے بم کا ہدف ایک مقامی قوم پرست پارٹی کا لیڈر تھا۔ یہ علاقہ سوات ویلی سے بہت قریب ہے اور اسی جگہ طالبان باغیوں نے اسکول کی طالبہ ملالہ یوسفزئی پر گولی چلائی تھی جو اُس کے سر پر لگی تھی۔
ایک سینئر پولیس اہلکار آصف اقبال نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو ایک بیان میں کہا کہ ریموٹ کنٹرول سے ہونے والے بم دھماکے کا نشانہ نیشنلسٹ قومی وطن پارٹی کے ایک مقامی لیڈر عدالت خان تھے۔ بم دھماکے کے نتیجے میں عدالت خان اور اُن کے دو ساتھی ہلاک ہو گئے۔ آصف اقبال کے بقول،" عدالت خان اور اُن کے ساتھی ہلاک ہو گئے ہیں اور ان کی گاڑی میں سوار مزید دو افراد شدید زخمی بھی ہوئے ہیں" ۔
اطلاعات کے مطابق اب تک کسی عسکریت پسند گروپ نے اس دہشت گردانہ کارروائی کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ تاہم ایک مقامی انٹیلیجنس اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا کہ 2009 ء میں عدالت خان نے طالبان کے مخالف ایک گاؤں کی ملیشیا کی حمایت کی تھی۔ بعد ازاں نومبر 2012 ء میں اس ملیشیا کا سربراہ ایک خود کُش بم حملے میں ہلاک ہو گیا تھا۔
اُدھر آج یعنی ہفتے کے روز ہی قبائلی علاقوں کے قریب ضلع ہنگو میں ایک علیحدہ واقعے میں طالبان اور القاعدہ سے منسلک عسکریت پسندوں کے مضبوط گڑھ اور خفیہ ٹھکانوں پر پاکستانی گن شپ ہیلی کاپٹروں کی گولہ باری کے نتیجے میں کم از کم نو عسکریت پسندوں کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔ ایک سکیورٹی اہلکار نے اے ایف پی کو بیان دیتے ہوئے کہا،" اس علاقے میں دہشت گردوں کی موجودگی کی تصدیق کی رپورٹ کے بعد ان کے ٹھکانوں کو گن شپ ہیلی کاپٹروں کی گولہ باری کا نشانہ بنایا گیا " ۔
آج کا یہ فضائی حملہ رواں ماہ طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف کی جانی والی دوسری کارروائی تھی اور یہ طالبان باغیوں کی طرف سے امن مذاکرات کو ناکام بنانے کے لیے کیے جانے والے حملوں کا رد عمل ہے۔
تحریک طالبان پاکستان میں جنگجوؤں کے متعدد دھڑے شامل ہیں اور یہ 2007 ء سے پاکستانی ریاست کے خلاف خونریز مخالفت جاری رکھے ہوئے ہے۔ 29 جنوری یعنی گزشتہ ماہ حکومت اور طالبان کے مابین امن مذاکرات کو عمل میں لانے کا اعلان کیا گیا تھا۔ جس کے بعد طالبان باغیوں کے حملوں میں واضح اضافہ دیکھنے میں آیا جس کے بعد سے مذاکرات کا عمل قریب ایک ہفتے سے جمود کا شکار ہے۔ حالات مزید سنگین اُس وقت ہو گئے جب گزشتہ اتوار کو طالبان کے ایک دھڑے نے 23 اغوا شدہ فوجیوں کو قتل کر دینے کا دعویٰ کیا۔
حکومتی ثالثوں نے امن مذاکرات کے دوسرے مرحلے کے انعقاد کے لیے فائر بندی کی شرط رکھ دی ہے، تاہم پاکستانی طالبان کے ایک نمائندے شاہد اللہ شاہد نے گزشتہ جمعے کو مذاکرات کے رُک جانے کا ذمہ دار اسلام آباد حکومت کو ٹھہرایا اور انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پہلے اپنی طرف سے فائر بندی کا اعلان کرے۔