بلوچستان میں نگران حکومت کا قیام: ایک تجزیہ
15 مارچ 2013گورنر راج کے خاتمے کے بعد بلوچستان اسمبلی کی بحالی وفاقی حکومت کے لیے نئی مشکلات پیدا کرسکتی ہے کیونکہ سابق وزیر اعلیٰ اسلم رئیسانی اور ان کے اتحادی جمعیت علمائے اسلام اور بی این پی عوامی کسی صورت میں مرکزی حکومت کے سامنے ہتھیار ڈالنے کو تیار نہیں۔ نواب اسلم رئیسانی اسلام آباد میں ہیں جبکہ جے یو آئی اور بی این پی عوامی کے رہنماؤں کو خصوصی طیارے کے ذریعے کوئٹہ سے اسلام آباد بلوا لیا گیا جہاں ان سے وفاقی حکومت نئی صوبائی حکومت کے قیام کے لیے مذاکرات کررہی ہے لیکن جے یوآئی کی قیادت مرکزی حکومت کی بات ماننے کو تیار نہیں کیونکہ ان کا مؤقف ہے کہ مرکز نے ان کے ساتھ وعدوں کے باوجود گورنر راج کا خاتمہ نہیں کیا تھا۔
سابق وزیر اعلیٰ اسلم رئیسانی اور جے یو آئی کی قیادت بلوچستان میں سندھ جیسا سیٹ اپ لانا چاہتی ہیں جہاں حکومت اور اپوزیشن دونوں مل کر نگران سیٹ اپ اپنے ہاتھوں میں لینا چاہتی ہیں تاکہ پاکستان کے آئین کی بیسویں ترمیم کے تحت آئندہ انتخابات کے لیے بلوچستان میں اپنی مرضی کا نگران وزیر اعلیٰ لایا جائے ۔ بلوچستان کے سابق اسپیکر اسلم بھوتانی کا کہنا ہے کہ گورنر راج کے خاتمے کے ساتھ سابق صوبائی حکومت بحال نہیں ہوسکتی بلکہ گورنر بلوچستان کو نئے وزیر اعلیٰ کے لیے اجلاس بلانا چاہیے۔
اگرگورنر وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے اجلاس بلواتے ہیں تواس کے بعد تمام ارکان کی مرضی ہوگی کہ وہ حکومت میں جاتے ہیں یا اپوزیشن میں لیکن ایک اور نظریہ چل رہا ہے کہ رئیسانی کو بحال کرتے ہیں تو کابینہ بحال ہوجائے گی اور وزراء بھی بحال ہوں گے تو اپوزیشن میں چار ارکان ہی ہوں گے اور طارق مگسی لیڈ کررہے ہیں۔ انہوں نے طارق مگسی کو اپوزیشن لیڈر بنایا تھا بعد میں نئے اسپیکر نے ان کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیا لیکن عدالت نے طارق مگسی کو بحال کردیا۔
کوئٹہ میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ رئیسانی اور ان کے اتحادیوں کا سخت مؤقف مرکزی حکومت کے لئے مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔ سینئر صحافی امین اللہ فطرت کا کہنا ہے کہ جے یو آئی اور بی این پی عوامی مرکزی حکومت سے ناراض ہیں کیونکہ انہوں نے متعدد مرتبہ وعدوں کے باوجود گورنر راج کا خاتمہ نہیں کیا تھا۔ بلوچستان میں غیر یقینی کی صورت حال ہے اور واضح نہیں ہے۔ بعض حلقوں کے مطابق ایسا دکھائی دیتا ہے کہ سابق حکومت کے اتحادیوں میں یہ فارمولا طے پا گیا ہے کہ نو ارکان اپوزیشن میں آئیں گے اور نگران سیٹ اپ کے لیے نواب رئیسانی، مولانا واسع (جے یو آئی) اور بی این پی عوامی اپوزیشن اور حکومت اتفاق سے لائیں گے۔
بلوچستان میں صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے لیکن نگران حکومت کے قیام کے لیے جو کھیل کھیلا جا رہا ہے وہ نہ صرف دلچسپ بلکہ آئینی ترمیم کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ پانچ سال تک اتحادی رہنے والے اپنی مرضی کی اپوزیشن لا کر نگران حکومت کا کنٹرول چاہتے ہیں۔
رپورٹ: محسن رضا، اسلام آباد
ادارت: ندیم گِل