بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال، انتخابات کے حوالے سے خدشات
26 اپریل 201311 مئی کو شیڈول عام انتخابات کو ملک میں جمہوریت کے استحکام اور دیگر سنگین بحرانوں کے خاتمے کے حوالے سے اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ توقع بھی کی جا رہی ہے کہ شاید یہ انتخابات ماضی کی محرویوں کے باعث شدید بحرانوں سے دوچار صوبہ بلوچستان کے لیے بھی سودمند ثابت ہوں گے۔ تاہم صوبے میں جمہوریت مخالف بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کی جانب سے ان انتخابات کی ناکامی کے لیے حالیہ حملوں نے اس صورتحال کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ اس صورتحال پر بلوچستان کے سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور عوام کو شدید تشویش لاحق ہے۔
جمعیت علماء اسلام سے تعلق رکھنے والے سینیٹر حمد اللہ کہتے ہیں کہ سکیورٹی خدشات دور کیے بغیر بلوچستان میں الیکشن کا انعقاد ممکن نہیں ہو سکتا، اس لیے حکومت کو پہلے امن کی بحالی کے لیے ترجیحی بنیادوں پر کام کرنا ہو گا۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کے دوران ان کا مذید کہنا تھا: ’’اس ملک کے لیے الیکشن کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ امن قائم کرے اور ووٹروں، سیاسی رہنماؤں اور نمائندوں کو سکیورٹی فراہم کی جائے تاکہ انتخابی عمل کا پر امن انعقاد ممکن ہو سکے۔ اگر حکومت امن قائم نہیں کرے گے تو انتخابات کیسے ہو سکتے ہیں اور عوام ووٹ کیسے استعمال کریں گے۔‘‘
امن وامان کی یہ بگڑتی ہوئی صورتحال حکومت کے قابو میں کیوں نہیں آ رہی اور اس کا بنیادی طور پر ذمہ دار کون ہے؟ یہ سوال جب ڈی ڈبلیو نے انسپکٹر جنرل فرنٹیئر کور بلوچستان میجر جنرل عبید اللہ خان سے پوچھا تو ان کا موقف کچھ یوں تھا: ’’بلوچستان کے حالات کے پیچھے بیرونی قوتیں ملوث ہیں جو کہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے بد امنی پھیلا رہی ہیں اور یہ ملک دشمن غیر ملکی ادارے ایک منظم سازش کے تحت یہاں امن و امان کو تباہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ انتخابات کا انعقاد ممکن نہ ہو سکے۔ ہم امن کی بحالی کے لیے تمام وسائل بروئے کا ر لا رہے ہیں اوراس سے نمٹنے کے لیے ہمیں یہ بھی تعین کرنا ہو گا کہ پاکستان کے خلاف جنگ کون لڑ رہا ہے اور پاکستان کے لیے جنگ کون لڑ رہا ہے۔‘‘
خیال رہے کہ بلوچستان میں بلوچ علیحدگی پسند گروپوں نے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے اور جمعہ 26 اپریل کی صبح پھینکے گئے مختلف پمفلٹس کے ذریعے ان گروپوں نے کوئٹہ سمیت بلوچستان کے متعدد دیگر اضلاع میں عوام اور سیاسی جماعتوں کو انتخابات سے دور رہنے کی دھمکی دی ہے۔ دھمکی آمیزخطوط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بلوچ مسلح گروپ انتخابات کو ناکام بنانے کے لیے تمام وسائل استعمال کریں گے۔ دوسری طرف حکومت کی طرف سے انتخابات کےانعقاد کے حوالے سے اس بار سکیورٹی کے غیر معمولی انتطامات کیے جا رہے ہیں اور الیکشن کمیشن نے صوبے کے 10 اضلاع کو انتہائی حساس قرار دیا ہےجبکہ انتخابات کے موقع پر بلوچستان میں فوج کو بھی اسٹینڈ بائی رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ کسی بھی نا خوشگوار واقعے سے بروقت نمٹا جا سکے۔
رپورٹ: عبدالغنی کاکڑ، کوئٹہ
ادارت: افسر اعوان