بلوچستان: مذہبی منافرت، حکام خاموش تماشائی
25 جولائی 2013صوبائی دارالحکومت کے شمال مشرقی اور وسطی علاقوں میں گزشتہ چند یوم کے دوران ہونے والے ہونے پر تشدد واقعات میں شیعہ اور سنی مسلک کے 15 سے زائد افراد کی ہلاکت کے بعد پیدا ہونے والی کشیدگی نے دونوں مسلک کے لوگوں میں مزید دوریاں پیدا کر دی ہیں اور فرقہ وارانہ دہشت گردی سے متاثرہ ان علاقوں میں آباد سنی اور شیعہ مسلک کے لوگوں میں مذہبی منافرت اتنی بڑھ گئی ہےکہ دونوں مسالک کےمشتعل افراد سرعام ایک دوسرے کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
بلوچستان شیعہ کانفرنس کے سربراہ داؤد آغاکو بھی اس صورتحال پر شدید تشویش لاحق ہے اور ان کا خیال ہے کہ ریاستی اداروں کی بے حسی کی وجہ سے شیعہ اور سنی مسلک کے لوگوں میں یہ نفرتیں پیدا ہو رہی ہیں۔ ڈوئچے ویلے سے گفتگو کے دوران ان کا موقف کچھ یوں تھا:’’دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کے لئے کوئی اقدام نہیں اٹھایا جا رہا ہے۔ جتنے بھی لوگ مارے گئے ہیں، کسی کا قاتل گرفتار نہیں ہوا ہے۔ ہم اس صورتحال کا ذ مہ دار ریاستی اداروں کو سمجھتے ہیں، جن کی یہ ذمہ داری ہے کہ لوگوں کی جان و مال کو تحفظ فراہم کریں۔ آپ دیکھیں ہمارے لوگوں کی شہادت کو ضرب لگانے کی کس طرح کوشش کی جا رہی ہے اور ریاستی ادارے دانستہ طور پر ایسے اقدامات کر رہے ہیں تاکہ یہاں شیعہ سنی فسادات پھیل سکیں۔‘‘
دفاعی امور کے سینئر تجزیہ کارجنرل (ر) طلعت مسعود نے بھی بلوچستان میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے ان واقعات کو حکومت کی عدم توجہی سے تعبیر کیا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کے دوران ان کا کہنا تھا:’’ہماری جو فیڈرل حکومت ہے، وہ بلوچستان کےمعاملات اور فرقہ وارانہ دہشت گردی کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھا رہی ہے۔ وہ قوتیں، جو پاکستان میں فر قہ وارانہ فسادات پھیلا نا چاہتی ہیں، ان کی خواہش ہے کہ شیعہ کمیونٹی کو ٹارگٹ کر کے کمزور کیا جائے۔ آپ نے دیکھا کہ ان واقعات میں مسلسل تیزی آ رہی ہے مگر مرکزی حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔‘‘
ادھر دوسری طرف بلوچستان کی مخلوط حکومتی جماعت پشتونخواء ملی عوامی پارٹی کے صوبائی پارلیمانی سربراہ عبدالرحیم زیارتوال کا کہنا ہے کہ حکومت امن کی بحالی کے لیے تمام وسائل بر وئے کار لا رہی ہے۔ ڈی ڈبلیوسے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا:’’امن کی بحالی کے ذمہ دار قانون نافذ کرنے والے ادارے ہیں اور ہم انہیں ہر وقت ڈائریکٹ کرتے رہے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ واقعات پیش آ رہے ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ بد امنی کا ہے اور صوبائی اور مرکزی حکومت دونوں کی ترجیہات میں یہ شامل ہے کہ ہم اپنے عوام کو امن دیں۔‘‘
خیال رہے کہ حال ہی میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں سنی مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد کی ہلاکت کے بعد کوئٹہ کے مرکزی علاقے پرنس روڈ پر واقع ایک امام بارگاہ پر مشتعل افراد نے پتھراؤ بھی کیا تھا، جس کی وجہ سے یہ کشیدگی مزید بڑھ گئی تھی۔