بلوچستان: سابقہ حکومتوں کے حمایتی گروپوں کو غیر مسلح کرنے کی مہم
21 جنوری 2014حکومت بلوچستان کی درخواست پر غیر مسلح کیے جانے والے ان گروپوں میں بلوچ مسلح دفاع تنظیم، تحریک نفاذ امن، سپا ہ شہدائے بلوچستان، الاانصار مجاہدین، بجرانی امن گروپ کے علاوہ دیگر گروپس بھی شامل ہیں۔ انہیں غیر مسلح کرنے کا فیصلہ صوبے میں بلوچ عسکریت پسندوں اور حکومت کے درمیان متوقع مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ بلوچستان کے وزیراعلٰی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے بقول ان کی حکومت صوبے میں حالات کو سازگار بنانا چاہتی ہے۔ یہ تمام اقدامات اس مفاہمتی عمل کا حصہ ہیں جنہیں موجودہ حکومت صوبے میں قیام امن کے لیے ناگزیر سمجھتی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کے دوران ان کا مزید کہنا تھا ’’یہاں کُشت و خون کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ سابقہ حکومتوں کے مایوس کن طرز حکمرانی سے صوبے کے حالات میں بہت خرابی پیدا ہوئی۔ بلوچستان آج جس عذاب اور مسائل سے گزر رہا ہے انہیں صرف مذاکرات کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے اور اس کا واحد حل پاکستا ن کے فریم ورک کے اند ر جمہوری جدو جہد میں پنہا ہے‘‘۔
سیاسی مبصرین ان گروپوں کی سرگرمیوں کو بلوچستان حکومت اور علیحدگی پسندوں کے درمیان متوقع مذاکرات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دے رہے تھے۔ صوبے کی بعض بلوچ قوم پرست جماعتوں نے بھی ان گروپوں کو بلوچ سیاسی کارکنوں کو لاپتہ کرنے اور ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کے واقعات کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔ بلوچ قوم پرست جماعت بی این پی مینگل کے مرکزی رہنماء ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے بھی حکومت کے اس فیصلے کو بلوچستان کے حالات کی بہتری کے حوالے سے اہم قرار دیا۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’’ یہ یقیناً ایک حوصلہ افزاء بات ہے۔ ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ حکومت اس نوعیت کے اقدامات کرے۔ ساتھ ساتھ ڈیتھ اسکواڈز جیسی دیگرجو معاشرتی خرابیاں پیدا کی گئی ہیں انہیں بھی ختم کیا جائے تاکہ لوگوں کو عملی طور پر یہ اقدامات دکھائی دیں۔ انہیں خوف محسوس نہ ہو اورآ پنے اپ کو محفوظ تصور کریں‘‘۔
بلوچ علیحدگی پسندوں اور صوبائی حکومت کے متوقع مذاکرات میں مرکزی حکومت کا کیا کردار ہوگا اس کا احاطہ وزیر مملکت برائے سرحدی امور اور قبائلی علاقہ جات جنرل( ر) عبدالقادر بلوچ نے کچھ یوں کیا۔ ’’ مذاکرات کے حوالے سے وفاق کی جانب سے صوبائی حکومت کی ہر ممکن مدد فراہم کی جائے گی۔ ہم ان کے ساتھ ہیں اور ہم سب مل کر کوشش کریں گے کہ اس معاملے کو حل کریں۔ وہ لوگ جو ناراض ہیں اور پہاڑوں میں لڑائی لڑ رہے ہیں ان کو مذاکرات کے لیے تیار کریں‘‘۔
محکمہ داخلہ کے ذرائع کے مطابق سابقہ دور کی مسلح تنظیموں کو یہ ہدایات بھی جاری کی گئی ہیں کہ وہ اپنی سرگرمیاں فی الفور ختم کر کے اپنے زیر استعمال اسلحہ کو حکومتی تحویل میں دے دیں اور اگر ایسا نہیں کیا گیا تو ان کے خلاف ضابطے کی سخت کارروائی بھی عمل میں لائی جائے گی۔