بلوچستان: زلزلے کے بعد امدادی کارروائیاں جاری
17 اپریل 2013ڈیڑھ سو سے زائد زخمیوں کو مختلف ہسپتالوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ امدادی کارروائیوں میں فوج اور دیگر ادارے بھی حصہ لے رہے ہیں۔ اس شدید زلزلے کے جھٹکے پاکستان کے دیگر علاقوں کے ساتھ ساتھ مشرق وسطیٰ اور بھارت میں بھی محسوس کیے گئے۔
منگل کی سہ پہر پاکستانی وقت کے مطابق تین بج کر چوالیس منٹ پر آنے والے ہولناک زلزلے کے جھٹکے یوں تو بلوچستان کے شمال مشرقی علاقوں کوئٹہ، پشین، مچھ، خضدار، پنجگور، دالبندین کے علاوہ ملک کے بڑے شہروں کراچی، حیدر آباد، پشاور، اسلام آباد اور راولپنڈی میں بھی محسوس کیے گئے۔ ویسے تو ان جھٹکوں کی شدت خلیجی ممالک، دبئی، ابوظہبی اور بحرین میں بھی محسوس کی گئی تاہم سات عشاریہ آٹھ شدت کے اس زلزلے سے زیادہ نقصان جنوب مشرقی ایران کے سرحدی علاقوں سے ملحقہ بلوچستان کے علاقے ماشکیل اور دیگر قریبی علاقوں میں ہوا ہے۔ حکام کے مطابق متاثرہ علاقوں میں سینکڑوں مکانات منہدم ہوئے ہیں جبکہ ایک ہزار سے زائد گھروں کو جزوی طور پر نقصان پہنچا ہے۔
مقامی صحافی علی دوست بلوچ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ماشکیل میں لدگشت نامی قصبہ مکمل طور پر تباہ ہو گیا ہے۔ مزید یہ کہ جاں بحق اور زخمی ہونے والوں میں بڑی تعداد میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کے دوران ان کا مزید کہنا تھا:’’زلزلے سے بہت بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے، ہزاروں لوگ بے گھر ہو گئے ہیں۔ علاقے میں خوراک اور ادویات کی بھی کمی پیدا ہو گئی ہے۔ زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیاں دیر سے شروع ہوئیں اور بعض دور افتادہ علاقوں کے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت زخمیوں کو ہسپتالوں میں منتقل کیا۔ کئی زخمیوں کی حالت اب بھی تشویشناک ہے اور ہلاکتوں میں مزید اضافے کا بھی خدشہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت امدادی کارروائیوں میں مزید تیزی لائے۔‘‘
زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں حکومتی سطح پر کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں اور اس وقت وہاں تازہ ترین صورتحال کیا ہے، اس سوال کے جواب میں ڈپٹی کمشنر واشک خان محمد نے ڈوئچے ویلے کو بتایا:’’متاثرہ علاقوں میں ہنگامی بنیادوں پر امدادی سرگرمیاں جاری ہیں اور پاک فوج ایف سی اور این ڈی ایم اے کی ٹیمیں ان امدادی سرگرمیوں میں حصہ لے رہی ہیں۔ زلزلہ متاثرین کو ہیلی کاپڑوں کے ذریعے ریلیف کا سامان پہنچایا جا رہا ہے اور ڈاکٹروں کی مختلف ٹیمیں بھی متاثرہ علاقوں میں بھیجی گئی ہیں تاکہ مزید نقصان نہ ہو۔ مکانات منہدم ہونے کی وجہ سے جو اکیس افراد ایک علاقے میں ملبے تلے دب گئے تھے، ان کی لاشیں بھی نکال لی گئی ہیں۔‘‘
یاد رہے کہ اس ہولناک زلزلے کا مرکز ایران کے جنوب مشرقی علاقے میں خش اور سراوان کا درمیانی علاقہ تھا اور ایک متحرک فالٹ لائن پر واقع ہونے کے باعث ماضی میں ان علاقوں میں زلزلے آتے رہے ہیں۔ ایرانی شہر بام میں 2005ء میں آنے والے زلزلے سے پچیس ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
رپورٹ: عبدالغنی کاکڑ، کوئٹہ
ادارت: امجد علی