بلوچستان دہشت گردانہ حملے کا الزام بے بنیاد ہے، بھارت
وقت اشاعت 21 مئی 2025آخری اپ ڈیٹ 21 مئی 2025آپ کو یہ جاننا چاہیے
- بلوچستان دہشت گردانہ حملے کا الزام بے بنیاد ہے، بھارت
- متنازعہ بیان دینے والا بھارتی پروفیسر ضمانت پر رہا
- پاکستانی وزیراعظم اور فوجی سربراہ بلوچستان میں
- بلوچستان دہشت گردانہ حملہ، پاکستان کا بھارت پر الزام
- پاکستانی اور چینی وزرائے خارجہ کی ملاقات
- پاکستانی سالمیت کے دفاع کی حمایت کرتے ہیں، چینی وزیرخارجہ
بلوچستان دہشت گردانہ حملے کا الزام بے بنیاد ہے، بھارت
بھارتی وزارت خارجہ نے بلوچستان میں بدھ کے روز ہونے والے دہشت گردانہ حملے میں ملوث ہونے کے پاکستانی الزام کو ’بے بنیاد‘ قرار دیا ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کہا، ’’بھارت خضدار میں بدھ کو ہوئے حملے اور انسانی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کرتا ہے اور پاکستان کی جانب سے اس حملے میں بھارتی ہاتھ کے بے بنیاد الزامات کو رد کرتا ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اپنے اندرونی معاملات سے توجہ ہٹانے کے لیے تواتر سے بھارت پر الزام تراشی کرتا رہتا ہے۔
متنازعہ بیان دینے والا بھارتی پروفیسر ضمانت پر رہا
بھارت کی اعلیٰ عدالت نے بدھ کے روز پروفیسر علی خان محمودآباد کو ضمانت پر رہا کر دیا۔ انہیں بھارت اور پاکستان کے درمیان فوجی تنازعے پر آن لائن تبصرہ کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ ضمانت پر رہائی کے باوجود عدالت نے ان کے خلاف جاری تحقیقات روکنے کا حکم نہیں دیا۔
علی خان محمودآباد، جو نجی لبرل آرٹس ادارے اشوکا یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر ہیں۔ انہیں اتوار کے روز اس فیس بک پوسٹ پر گرفتار کیا گیا جس میں انہوں نے جنگ کی ’’اندھی حمایت‘‘ کرنے والوں پر تنقید کی تھی۔
انہوں نے یہ بھی لکھا تھا، ’’دو خواتین فوجی افسران کی پریس بریفنگز کی ظاہری تصویر درحقیقت عملی اقدامات میں تبدیل ہونی چاہیے، ورنہ یہ محض منافقت ہے۔‘‘
بعد ازاں محمودآباد نے کہا کہ ان کے تبصروں کو غلط سمجھا گیا اور یہ کہ انہوں نے سوچ اور اظہار رائے کی بنیادی آزادی کا استعمال کیا تھا۔
ان پر بھارتی تعزیرات کے متعدد دفعات کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں، جن میں ملکی خودمختاری کو خطرے میں ڈالنا اور کسی خاتون کی تکریم کو مجروح کرنے کی نیت سے نادرست الفاظ یا اشاروں کے استعمال کے الزامات شامل ہیں۔
سپریم کورٹ نے ضمانت دیتے ہوئے کہا کہ محمودآباد کو ’’پیچیدہ الفاظ کے استعمال‘‘ سے گریز کرنا چاہیے تھا کیونکہ یہ ’’عام افراد کے جذبات کو مجروح‘‘ کر سکتے ہیں، اور یہ کہ انہیں ’’اپنے جذبات کے اظہار کے لیے سادہ الفاظ‘‘ کا استعمال کرنا چاہیے تھا۔
عدالت نے ان کے تبصروں کی تحقیقات کے لیے ایک خصوصی پولیس ٹیم تشکیل دینے کی بھی ہدایت کی۔ محمودآباد کو بھارت پاکستان تنازعے یا اس سوشل میڈیا پوسٹ پر مزید تبصرہ کرنے سے روک دیا گیا ہے جس کے تناظر میں انہیں گرفتار کیا گیا تھا۔
پاکستانی وزیراعظم اور فوجی سربراہ بلوچستان میں
پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف فوجی سربراہ فیلڈمارشل عاصم منیر کے ہمراہ بلوچستان پہنچ رہے ہیں۔
وزیراعظم شریف کے دفتر سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ شہباز شریف اور فیلڈمارشل عاصم منیر اپنے اس دورے میں بلوچستان میں خودکش کار بم حملے کے متاثرین سے ملاقاتیں کریں گے۔ پاکستان نے اس دہشت گردانہ حملے کی ذمہ داری بھارت پر عائد کی ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ بھارت بھی اپنے ہاں ہونے والے دہشت گردانہ واقعات کی ذمہ داری پاکستان پر عائد کرتا ہے۔
ابھی حال ہی میں متنازعہ علاقے کشمیر کے ضلعے پہلگام میں ہوئے ایک دہشت گردانہ حملے میں دو درجن سے زائد افراد کی ہلاکت کا الزام بھارت نے پاکستان پر عائد کیا تھا۔ اس تناظر میں بھارت نے پاکستان میں متعدد اہداف پر میزائل حملے کیے تھے، جس کے جواب میں پاکستانی کارروائیوں کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان مسلح کشیدگی کئی دہائیوں کی بدترین سطح پر جا پہنچی تھی۔
بلوچستان دہشت گردانہ حملہ، پاکستان کا بھارت پر الزام
بدھ کے روز بلوچستان میں ایک اسکول بس پر ہوئے خودکش کار بم حملے کا الزام پاکستان کی جانب سے بھارت پر عائد کیا گیا ہے۔
پاکستانی فوج کی طرف سے جاری کردہ بیان میں اس حملے کو ’’بزدلانہ‘‘ قرار دیتے ہوئے الزام عائد کیا گیا ہے کہ اس حملے کی منصوبہ بندی بھارت میں کی گئی اور اسے بلوچستان میں بھارت کے پراکسی گروپ بلوچستان لبریشن آرمی نے انجام دیا۔ یہ بات اہم ہے کہ بلوچستان میں حالیہ کچھ عرصے میں علیحدگی پسند گروپ بلوچستان لبریشن آرمی پے در پے دہشت گردانہ حملوں میں ملوث رہا ہے، جب کہ پاکستانی الزام ہے کہ اس گروپ کو بھارت کی مدد حاصل ہے۔ پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف نے اس واقعے پر اپنے ردعمل میں کہا کہ اسکول بس پر بھارتی حمایت یافتہ دہشت گردوں کا حملہ واضح کرتا ہے کہ یہ گروپ بلوچستان میں تعلیم سے کتنی دشمنی رکھتا ہے۔
پاکستانی سالمیت کے دفاع کی حمایت کرتے ہیں، چینی وزیرخارجہ
چینی وزیرخارجہ وانگ یی نے کہا ہے کہ چین پاکستان کے سالمیت کے دفاع کی حق کی حمایت کرتا ہے۔ چینی وزیرخارجہ نے کہا کہ ان کا ملک مسائل کے حل کے لیے پاک بھارت مذاکرات کا حامی ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان چار روز مسلح جھڑپوں کے بعد دونوں ممالک سیزفائر پر متفق ہو گئے تھے۔ اس خونریز کشیدگی کے بعد پاکستانی وزیرخارجہ کا یہ پہلا دورہ چین ہے۔
پاکستانی اور چینی وزرائے خارجہ کی ملاقات
پاکستانی وزیرخارجہ اسحاق ڈار نے چینی وزیرخارجہ وانگ یی سے ملاقات کی۔ پاک بھارت کشیدگی کے تناظر میں اس ملاقات کو اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
پاکستانی وزیرخارجہ اسحاق ڈار کا یہ دورہ اس لیے بھی اہم ہے کیوں کہ اس وقت افغانستان کے عبوری وزیرخارجہ امیر تقی چین میں ہیں۔ چینی خبر رساں اداروں کے مطابق بیجنگ میں اسحاق ڈار اور متقی کے درمیان بھی ایک غیررسمی ملاقات ہوئی۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ طالبان کے متقی نے پاکستانی وزیر خارجہ اسحاق ڈار سے ایک غیر معمولی ملاقات میں پاکستان سے ہزاروں افغان مہاجرین کی ملک بدری پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ اس ملاقات کو دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ صورتحال میں بہتری کی ایک کوشش قرار دیا گیا تھا۔
یہ بات اہم ہے کہ پاکستان نے مارچ کے آخر سے اب تک 80,000 سے زائد افغان شہریوں کو ملک بدر کیا ہے۔ سن 2023 سے پاکستان سے افغان مہاجرین کی واپسی کی نئی مہم جاری ہے۔