اپنے بچوں کو نادانستہ 'زہر دینے والی‘ ہزاروں اطالوی مائیں
30 مارچ 2025شمال مشرقی اٹلی کے ایک ایسے حصے میں، جہاں صنعتی فضلات کی وجہ سے زیر زمین پانی اور زمین دونوں آلودہ تھے، یہ زہریلے کیمیکلز وہاں رہنے والی ان ہزاروں خواتین کے خون میں شامل ہو گئے اور انہیں اس بات کا علم تک نہیں ہو سکا۔ پھر جب وہ حاملہ ہوتیں یا پیدائش کے بعد اپنے بچوں کو دودھ پلاتیں، تو ان کے خون میں موجود یہ زہریلے کیمیائی مادے ان کے بچوں میں منتقل ہو جاتے۔
ان زہریلے کیمیکلز کو پولی فلورو الکائل مادے یا پی ایف اے ایس کہا جاتا ہے۔ انہیں 'ہمیشہ باقی رہنے والے کیمیائی مادے‘ بھی کہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ زہریلے مادے جہاں کہیں بھی موجود ہوں، انہیں کیمیائی سطح پر ٹوٹ پھوٹ کے بعد تحلیل ہونے یا ختم ہونے میں لاکھوں برس لگتے ہیں۔
شمال مشرقی اٹلی میں ان زہریلے مادوں نے جس خطے کو بری طرح متاثر کیا، اس میں ویچینزا، ویرونا اور پاڈووا جیسے شہری علاقے بھی شامل ہے۔ ماہرین کے مطابق خطرناک صنعتی فضلات کو مناسب طریقے سے ٹھکانے لگانے کے بجائے آبی راستوں میں چھوڑ دینے کی وجہ سے پھیلنے والی اس آلودگی سے متاثرہ انسانوں کی تعداد تقریباﹰ ساڑھے تین لاکھ بنتی ہے۔
پی ایف اے ایس نامی کیمیکلز انسانوں کے ہارمونز میں تبدیلیوں کی وجہ بھی بنتے ہیں۔
یورپ میں ماحولیاتی آلودگی کے سب سے تباہ کن واقعات میں سے ایک
یہ آبی اور زمینی آلودگی یورپ میں ماحولیاتی آلودگی کے سب سے بڑے اور تباہ کن واقعات میں سے ایک قرار دی جاتی ہے۔ اس کا سبب اس خطے کی کیمیکلز تیار کرنے والی ایک ایسی کمپنی بنی، جس کا نام میٹینی تھا، جسے 2018 میں بند کر دیا گیا۔ لیکن اس کمپنی کی وجہ سے اس خطے کی زمین میں، زیر زمین پانی میں اور عام لوگوں کے خون میں چلے جانے والے 'فار ایور کیمیکلز‘ ابھی تک موجود ہیں اور موجود رہیں گے۔
یورپ میں فضائی آلودگی کے باعث سینکڑوں نوجوان ہلاک
میٹینی کے خلاف ایک اجتماعی مقدمہ بھی دائر کیا جا چکا ہے، جس کے درخواست دہندگان میں متاثرہ مقامی خواتین کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ یہ مقدمہ میٹینی فیکٹری کے پندرہ مینیجرز کے خلاف چلایا جا رہا ہے، جس میں ان پر الزام ہے کہ انہوں نے ان زہریلے مادوں کا علم ہونے کے باوجود پی ایف اے ایس کیمیکلز والا پانی ایک آبی گزرگاہ میں چھوڑنا شروع کر دیا تھا۔ یہ آبی گزرگاہ آگے جا کر کئی دوسرے آبی راستوں میں شامل ہو جاتی تھی۔ یوں پورا خطہ اور اس کی زمین دونوں بری طرح آلودہ ہو گئے۔
پاکستان، پینے کا پانی زہریلا ہونے لگا
پچاس سالہ ڈوناڈیلو کہتی ہیں، ''میں نے چالیس برس تک اسی زمین پر اگائی گئی سبزیاں اور پھل کھائے، جن میں آلودہ پانی کی وجہ سے یہ زہریلے کیمیکلز موجود تھے۔ اس طرح میں لاعلمی میں یہ زہر اپنے بچوں میں منتقل کرتی رہی۔ میرے دو بچے ہیں، جن کی عمریں آٹھ اور دس سال ہیں۔ ان کے خون میں ان زہریلے کیمیکلز کی شرح بہت زیادہ ہے۔ میں یہ سوچ کر بہت پریشانی ہوتی ہوں کہ ان بچوں کا کیا بنے گا؟
کینسر کا بھی خطرہ
طبی ماہرین کے مطابق جن انسانوں کے خون میں پی ایف اے ایس مادوں کی کم مقدار بھی طویل عرصے تک باقی رہتی ہے، وہ جگر کی خرابی، کولیسٹرول کی اونچی سطح، جسمانی مدافعتی نظام کی کمزوری اور کئی طرح کے کینسر کا شکار ہو سکتے ہیں۔
ڈوناڈیلو کہتی ہیں کہ ان کے دونوں بچے بظاہر ٹھیک نظر آتے ہیں، لیکن انہیں مسلسل تشویش رہتی ہے کہ ان بچوں کو کچھ ہو نہ جائے۔ میٹینی نامی فیکٹری سے بارہ کلومیٹر کے فاصلے پر ویچینزا میں اپنے آبائی گھر میں رہنے والی ڈوناڈیلو کے مطابق، ''میرے بچوں میں کسی بیماری کی معمولی سی علامات بھی ظاہر ہونے لگے، تو میرا ردعمل شدید ہوتا ہے۔ میں بہت ڈر جاتی ہوں۔"
اٹلی کے اس حصے میں بہت سی خواتین نے اپنی ایک تنظیم بھی قائم کر رکھی ہے، جس کا نام ''پی ایف اے ایس کے خلاف مائیں‘‘ ہے۔ یہ تنظیم اس وقت قائم کی گئی تھی جب متاثرہ خواتین اور ان کے بچوں کے خون میں 'فار ایور کیمیکلز‘ کی موجودگی ثابت ہونے لگی تھی۔
انڈوں میں بھی کیمیکلز کی موجودگی
ڈوناڈیلو نے اپنے گھر کے باغ میں پانی کا کنواں دو ہزار پندرہ میں اس لیے بند کر دیا تھا کہ اس کا پانی بھی آلودہ تھا۔ اس کے پانی سے جن درختوں اور کھیتوں کی آبپاشی کی جاتی تھی، ان سے حاصل ہونے والے پھلوں اور سبزیوں میں زہریلے کیمیکلز کی موجودگی ثابت ہو گئی تھی۔
دریا اینٹی بائیوٹکس فضلے سے متاثر، مطالعاتی رپورٹ
اس بارے میں باقاعدہ سائنسی مطالعہ پاڈوآ یونیورسٹی کے ماہرین نے کیا تھا۔ اس خطے میں پی ایف اے ایس کا مسئلہ اتنا شدید ہے کہ گھروں میں پالی جانے والی مرغیاں جو انڈے دیتی ہیں، ان میں بھی یہ کیمیکلز پائے جاتے ہیں۔
ڈوناڈیلو کے والد کی عمر اس وقت چوراسی برس ہے۔ وہ سالہا سال تک اپنی زمین زرعی مقاصد کے لیے استعمال کرتے رہے۔ لیکن انہوں نے بھی اس زمین پر کاشت کاری اس وقت مجبوراﹰ چھوڑ دی، جب یہ ثابت ہو گیا کہ ان کے دونوں نواسوں کے خون میں زہریلے کیمیکلز نہ صرف موجود تھے بلکہ ان کی شرح کافی زیادہ تھی۔
ع ج ⁄ ج ا (اے ایف پی)