اپنی زندگی کی قیمت پر سستے کپڑے فراہم کرنے والے مزدور
1 مئی 2013بنگلہ دیشی دارالحکومت ڈھاکا کے قریبی علاقے میں بدھ 24 اپریل کو رانا پلازہ نامی ایک عمارت گرنے کے باعث ہلاکتوں کی تعداد 400 سے تجاوز کر چکی ہے۔ غیر ملکی برانڈز کے لیے کپڑے تیار کرنے والے کارکنان کی سینکڑوں کی تعداد میں ان ہلاکتوں نے اس حقیقت کو ایک بار پھر دنیا کے سامنے لا کھڑا کیا ہے کہ مغربی ممالک کے عوام کو سستی ٹی شرٹس، زیر جامہ ملبوسات اور دیگر کپڑے تیار کرنے کے لیے غریب ممالک کے مزدور اپنی زندگی تک کے خطرات مول لیتے ہیں۔
اس المناک حادثے سے چند ماہ قبل ہی یعنی نومبر 2012ء میں بنگلہ دیش ہی ایک فیکٹری میں لگنے والی آگ کے نتیجے میں 112 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ایسے حادثات نے کم از کم اُن روشن ضمیر صارفین کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے کہ سستے کپڑوں اور دیگر ضروریات کی تیاری ایسے ماحول میں ممکن ہو سکے جو مزدوروں اور کارکنوں کے لیے محفوظ ہو۔
عالمی سطح پر بہت کم کمپنیاں ایسی ہیں جو ایسے کپڑے فروخت کرتی ہیں جنہیں "Ethically made" یا اخلاقی ضوابط کے تحت تیار کردہ مصنوعات قرار دیا جا سکتا ہو۔ یا انہیں ایسی کمپنیوں میں تیار کیا گیا ہو جہاں کام کرنے کا محفوظ ماحول مہیا کیا گیا ہو۔ دراصل اخلاقی ضوابط کے تحت تیار کردہ کپڑوں کا حجم انتہائی کم ہے اور یہ ایک ٹریلین ڈالر کی عالمی فیشن مارکیٹ کا صرف ایک فیصد ہی بنتا ہے۔
یہ بات بھی انتہائی مشکل ہے کہ اس بات کو کیسے یقینی بنایا جائے کہ کوئی کپڑے اخلاقی ضوابط کے مطابق تیار کیے گئے ہیں۔ بڑی بڑی کمپنیاں اکثر سپلائرز کے ایک ایسے پیچیدہ نیٹ ورک کے ذریعے کام مال منگواتی ہیں جو بنگلہ دیش جیسے ممالک میں پھیلا ہوا ہے۔ یہ سپلائرز مال زیادہ تر دیگر کمپنیوں سے تیار کراتے ہیں، اس لیے ریٹیلرز کو اس بات کا معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ان کو فراہم کیا جانے والا مال اصل میں کہاں تیار ہوا ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اگر کپڑے فروخت اور تیار کرنے والی کمپنیاں اپنی مصنوعات پر ’فیئر ٹریڈ‘ کا لیبل استعمال کرنا چاہتی ہیں تو انہیں حفاظتی اور اجرت کے حوالے سے ان اصولوں کی پیروی کرنا ہوگی، جو مطلوبہ صنعتوں سے متعلق آڈیٹنگ گروپس کی طرف سے متعین کیے گئے ہیں۔
aba/ai (AP)