انسداد تشدد کے کنونش پر عمل درآمد بہت ضروری ہے، ایمنسٹی
10 دسمبر 2014آج انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ دس دسمبر 1984ء کو اقوام متحدہ کے زیراہتمام ہونے والے ایک اجلاس میں انسداد تشدد کے لیے ایک کنونشن منظور کیا گیا تھا۔ تاہم تین دہائیاں گزرنے کے باوجود بھی بہت سے ملکوں میں زیر حراست افراد کے ساتھ بیہیمانہ رویہ پہلے ہی کی طرح جاری ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشل کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں کے دوران تقریباً 141 ممالک میں تشدد اور بدسلوکی کے واقعات منظر عام پر آئے ہیں۔ اس حوالے سے ایمنسٹی میں بین الاقوامی قوانین کے امور کی ماہر ماریا شرلاؤ کہتی ہیں کہ دنیا میں شاید ہی کوئی جگہ تشدد سے پاک ہو۔ ایمنسٹی کے مطابق پوچھ گچھ کے دوران زبردستی جگانا، کوڑے مارنا، بجلی کے جھٹکے لگانا اور جسم پر گرم پانی انڈیلنا مختلف ممالک میں روز مرہ کا معمول ہے۔
اس سال انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر ایمنسٹی نے عالمی برادری سے تشدد کے خاتمے کے لیے مل کر اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ساتھ ہی اس عالمی تنظیم نے خبردار بھی کیا ہے کہ اگر اس معاملے میں ذرا سی بھی تاخیر برتی گئی یا غیر سنجیدہ رویہ اختیار کیا گیا تو اس کے نتائج سنگین ہو سکتے ہیں۔ شرلاؤ کے بقول ہر طرح کی ایذا رسانی قانون کی حکمرانی کے خلاف ہے۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ اب وقت آگیا ہے کہ اقوام متحدہ کے کنونشن پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔
اس تنظیم کے مطابق میکسیکو، فلپائن، نائیجریا، ازبکستان، مراکش اور مغربی صحارہ کے ممالک میں تشدد معمول کی کارروائیوں کا حصہ ہے۔ اس عمل میں زیادہ تر پولیس اور خفیہ ایجنسیاں ملوث ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر فلپائنی پولیس میں تشدد اور بدسلوکی کا رجحان بہت زیادہ ہے۔ یہاں اکثر نشانہ بننے والے غریب اور بے قصور لوگ ہوتے ہیں اور ذمہ دار افراد کو عام طورپر کچھ نہیں کہا جاتا۔
ماریا شرلاؤ بتاتی ہیں کہ میکسیکو میں بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جرمنی اور میکسیکو کی پولیس کے مابین تعاون کا معاہدہ طے ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ برلن حکومت کو کسی ایسی پولیس کے ساتھ ہر طرح کے سمجھوتوں کو فوری طور پر ختم کردینا چاہیے، جو بھی ایذا رسانی کے حربے استعمال کرنے کی وجہ سے جانی جاتی ہو۔
ایمنسٹی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جرمنی میں بھی کچھ شعبوں میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ انسداد تشدد کے لیے سرگرم ملکی ادارے کے مطابق جرمنی میں قائم جیلوں میں مہیا سہولیات کی دوبارہ سے جانچ پڑتال کی جانی چاہیے کیونکہ ان مراکز کے لیے سالانہ صرف پانچ لاکھ یورو مختص کیے گئے ہیں، جو بہت کم ہیں۔ ایمنسٹی کے بقول شامی تارکین وطن کو پناہ دینے کے حوالے سے بھی عالمی برادری ناکام ہو چکی ہے اور اس تناظر میں یورپی یونین کا کردار انتہائی شرمناک ہے۔