انسانی حقوق کی پامالی، امدادی تنظیم نے مصراتہ میں کام روک دیا
27 جنوری 2012امدادی تنظیم میڈیساں ساں فرنٹیئر کا مؤقف ہے کہ اگر اس کے طبی عملے نے اپنا کام جاری رکھا تو قید خانوں میں مقید افراد کو مزید تشدد کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ اس تنظیم کے ڈائریکٹر جنرل کرسٹوفر اسٹروکس کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے، ’ ایسے مریضوں کو علاج کے لایا جاتا ہے، جن سے تفتیش کی جا رہی ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کا علاج کیا جائے تاکہ ان سے مزید تفتیش کی جا سکے۔‘
کرسٹوفر اسٹروکس نے کہا کہ یہ عمل ناقابل قبول ہے: ’ہمارا کام جنگ سے متاثر ہونے والے افراد اور بیمار قیدیوں کو طبی مدد فراہم کرنا ہے نہ کہ صرف کسی ایک قیدی کا بار بار علاج کرنا تا کہ اس سے تفتیش کی جا سکے۔‘‘
میڈیساں ساں فرنٹیئر کے ڈائریکٹر جنرل کے مطابق ان کے مقامی اہلکاروں نے مصراتہ کے حکام اور قومی فوج کے سامنے یہ مسئلہ اٹھایا ہے تاہم اس بارے میں کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔ اسٹروکس کے بقول، ’ اس لیے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہمارا طبی عملہ قید خانوں میں طبی مدد فراہم کرنے کا کام معطل کر دے۔‘
ایمنسٹی انٹر نیشنل سمیت انسانی حقوق کے لیے سرگرم کئی تنظیموں نے لیبیا میں قیدیوں کے ساتھ تشدد کے مبینہ واقعات کے بارے میں شدید تحفظات ظاہر کیے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ان قیدیوں میں زیادہ تر کا تعلق زیریں سہارا افریقی علاقوں سے ہے، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ لیبیا میں نو ماہ تک جاری رہنے والی خانہ جنگی میں مقتول قذافی کی خاطر لڑے تھے۔
اس طرح کی اطلاعات لیبیا کی قومی عبوری کونسل کے لیے شرمندہ کا باعث بن رہی ہیں، جس نے کہا ہے کہ وہ انسانی حقوق کا احترام کرے گی اور لیبیا میں ایسے واقعات رونما نہیں ہوں ، جیسا کہ قذافی کے دور میں ہوا کرتے تھے۔
لیبیا کی نئی حکومت کے ایک اعلیٰ اہلکار نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا ہے کہ ایسی تمام تر اطلاعات کو بھرپور توجہ دی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا، ’ کوئی شک نہیں کہ لیبیا میں انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے تاہم اس کا تعلق ان لوگوں کی ذہنیت پر ہے جو مقامی سطح پر قید خانوں کے منتظم ہیں۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ ان واقعات کا قومی عبوری کونسل یا حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور متعلقہ حکام ان انفرادی اعمال کا نوٹس لیں گے۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: شمال شمس