امریکہ ہوا کے معیار سے متعلق معلومات بھی اب نہیں دے گا
6 مارچ 2025امریکی حکومت کی جانب سے ہوا کے معیار سے متعلق ڈیٹا کے اشتراک کی سہولت بند کرنے کے اعلان نے پاکستان سمیت دنیا بھر کے کئی ممالک میں سائنسدانوں اور ماہرین کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس امریکی اقدام کو عالمی سطح پر ہوا کے معیار کی نگرانی اور صحت عامہ کو بہتر بنانے کے لیے انتہائی اہم اور ضروری سمجھا جاتا رہا ہے۔
اس سہولت کے تحت مختلف ممالک میں امریکی سفارت خانوں اور کونسل خانوں میں نصب جدید آلات کی مدد سے ہوا کے معیار کا ڈیٹا اکٹھا کر کے مختلف ممالک کے ساتھ شیئر کیا جاتا تھا۔ امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں امریکی محکمہ خارجہ نے بدھ کو بتایا کہ اس کا ہوا کے معیار کی نگرانی کا پروگرام سفارت خانوں اور قونصل خانوں سے اکٹھا کیا جانے والا فضائی آلودگی کا ڈیٹا اب دیگر پلیٹ فارمز کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی تحفظ ایجنسی (ای پی اے) کی AirNow ایپ کو منتقل نہیں کرے گا۔
یہ پلیٹ فارمز اور ایپ دنیا بھر کے سائنسدانوں کے ساتھ ساتھ مقامی لوگوں کو دنیا کے مختلف شہروں میں ہوا کے معیار کو دیکھنے اور تجزیہ کرنے کے قابل بناتے آئے ہیں۔
ڈیٹا شیئرنگ میں رکاوٹ کی وجہ فنڈنگ میں کمی
امریکی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ڈیٹا شیئرنگ میں روک ''فنڈنگ کی رکاوٹوں کی وجہ سے ہے، جس کی وجہ سے ڈیپارٹمنٹ نے بنیادی نیٹ ورک کو بند کر دیا ہے۔‘‘ اس بیان میں مزید کہا گیا کہ سفارت خانوں اور قونصل خانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنی مانیٹرنگ جاری رکھیں اور اگر فنڈز بحال کیے گئے تو مستقبل میں ڈیٹا کی شیئرنگ دوبارہ شروع ہو سکتی ہے۔
اس مالیاتی کٹوتی سے متعلق سب سے پہلے نیویارک ٹائمز نے رپورٹ کی تھی۔ یہ ان بہت سے اقدامات میں سے ایک ہے، جو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے ماحولیات اور آب و ہوا کی بہتری کے منصوبوں کو کم ترجیح دینے کے نتیجے سامنے آئے ہیں۔
امریکی فضائی معیار کی نگرانی کا نظام فضا میں موجود PM2.5 نامی ان انتہائی خطرناک باریک ذرات کی پیمائش کرتا ہے، جو پھیپھڑوں میں گہرائی تک پہنچ کر سانس کی بیماریوں، دل کی تکالیف اور قبل از وقت موت کا باعث بن سکتے ہیں۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا اندازہ ہے کہ فضائی آلودگی دنیا بھر میں ہر سال تقریباً 70 لاکھ افراد کی جان لے لیتی ہے۔ ڈیٹا شیئرنگ میں کٹوتی کی خبروں پرسائنس دانوں کی جانب سے فوری ردعمل کا اظہار کیا گیا جنہوں نے کہا کہ امریکی اعداد و شمار قابل بھروسہ تھے اور یہ دنیا بھر میں ہوا کے معیار کی نگرانی کے ساتھ ساتھ حکومتوں کو ہوا کو صاف کرنے میں مدد مہیا کرتے تھے۔
پاکستانی صوبوں کا ملا جلا رد عمل
پاکستان میں مقیم ایک ماحولیاتی ماہر اور وکیل خالد خان کا کہنا ہے کہ ہوا کے معیار کی نگرانی کی بندش کے ''اہم نتائج ہوں گے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ امریکی پروگرام مقامی نیٹ ورکس سے آزاد اور ہوا کے معیار سے متعلق بین الاقوامی ڈیٹا تک رسائی کا ایک اہم ذریعہ تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کا شہر پشاور، جو دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سے ایک ہے، سے متعلق ''ریئل ٹائم اہم ڈیٹا فراہم کیاگیا‘‘ جس سے پالیسی سازوں، محققین اور عوام کو اپنی صحت کے بارے میں فیصلے کرنے میں مدد ملی۔
اس ماہر ماحولیات کا مزید کہنا تھا، ''ان کے ہٹانے کا مطلب ماحولیاتی نگرانی میں ایک اہم خلا ہے، جس سے رہائشیوں کو خطرناک فضائی حالات کے بارے میں درست معلومات حاصل نہیں ہوں گی۔‘‘ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور دنیا بھر میں کمزور لوگ خاص طور پر ماحولیاتی خطرات سے دوچار ہیں کیونکہ ان کے پاس دوسرے ذرائع سے حاصل کردہ قابل اعتماد ڈیٹا تک رسائی کا امکان کم ہے۔
پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجا ب میں سموگ کے مسئلے سے نبرد آزما ماحولیاتی حکام نے البتہ امریکی ماحولیاتی نگرانی کے نظام سے ڈیٹا کی ترسیل کی بندش سے پریشان نہیں۔ صوبائی سیکرٹری ماحولیات راجہ جہانگیر نے کہا کہ پنجاب حکام کا نگرانی کا اپنا نظام موجود ہے اور وہ مزید تیس مانیٹر خریدنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔
متعدد افریقی ممالک اورڈبلیو ایچ او بھی متاثرین میں شامل
اسی امریکی پروگرام کے تحت سینیگال، نائیجیریا، چاڈ اور مڈغاسکر سمیت ایک درجن سے زیادہ ممالک کے لیے ہوا کے معیار کا ڈیٹا فراہم کیا جاتا رہا ہے۔ ان میں سے کچھ ممالک اپنے فضائی معیار کے ڈیٹا کے لیے تقریباً مکمل طور پر امریکی نگرانی کے نظام پر انحصار کرتے ہیں۔
امریکی پروگرام بند ہونے سے ڈبلیو ایچ او کا ہوا کے معیار سے متعلق ڈیٹا بیس بھی متاثر ہوگا۔ بہت سے غریب ممالک ہوا کے معیار کو ٹریک نہیں کرتے کیونکہ یہ اسٹیشنز بہت مہنگے ہیں اور ان کی مینٹیننس بہت پیچیدہ ہے۔ اس لیے یہ ممالک مکمل طور پر امریکی سفارت خانے کے مانیٹرنگ ڈیٹا پر انحصار کرتے ہیں۔
'بھارت کے لیے موقع‘
گلوبل کلائمیٹ اینڈ ہیلتھ الائنس کی مہم کی سربراہ شویتا نارائن کا کہنا ہے کہ بھارت میں امریکی ماحولیاتی مانیٹروں کی بندش ایک ''بہت بڑا دھچکا‘‘ ہے لیکن ان کے بقول یہ بھارتی حکومت کے لیے آگے بڑھنے اور اس شعبے میں خلا کو پُر کرنے کا ایک ''اہم موقع‘‘ بھی ہے۔
نارائن نے کہا، ''اپنے فضائی معیار کی نگرانی کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط، ڈیٹا کی شفافیت کو یقینی بنا کر فضائی معیار کی رپورٹنگ میں عوام کا اعتماد پیدا کر تے ہوئے بھارت جوابدہی اور ماحولیاتی نظم و نسق کے لیے ایک معیار قائم کر سکتا ہے۔‘‘
ش ر/ا ب ا ( اے پی)