افغان طالبان کا خونریز حملہ، انیس فوجی ہلاک
23 فروری 2014کابل میں حکام نے بتایا کہ اس حملے میں مارے جانے والے فوجیوں کی تعداد کے حوالے سے یہ طالبان باغیوں کا افغان فوج پر کم از کم گزشتہ ایک سال کے دوران کیا جانے والا سب سے ہلاکت خیز حملہ ہے۔ اس حملے کی افغان صدر حامد کرزئی نے شدید مذمت کی ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے سری لنکا کا اپنا ایک مجوزہ دورہ بھی ملتوی کر دیا ہے۔ افغان وزارت دفاع کے ترجمان جنرل محمد ظاہر عظیمی نے بتایا کہ یہ حملہ ‘سینکڑوں‘ افغان اور غیر ملکی باغیوں نے آج اتوار کی صبح صوبے کُنڑ میں غازی آباد کے ضلع میں کیا۔ انہوں نے تصدیق کی کہ اس کارروائی کے دوران افغان فوج کے اہلکاروں کی مسلح باغیوں کے ساتھ لڑائی چار گھنٹے تک جاری رہی۔ اس دوران انیس فوجی ہلاک اور دو زخمی ہوئے۔
اس کے علاوہ افغان فوج کے ایک ایسے فوری امدادی قافلے کو بھی ایک خود کش حملے کا نشانہ بنایا گیا جو غازی آباد میں اس فوجی چیک پوسٹ کے عملے کی مدد کے لیے وہاں جا رہا تھا۔ تاہم اس خود کش حملے میں افغان فوج کو کوئی جانی نقصان نہیں پہنچا۔
جنرل ظاہر عظیمی کے مطابق اس واقعے کی چھان بین شروع کر دی گئی ہے اور لاپتہ فوجیوں کی تلاش اور زخمیوں کی مدد کے لیے کارروائیاں جاری ہیں۔ ادھر صوبے کُنڑ کے گورنر کے ترجمان عبدالغنی مُصمِم نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ اس حملے کے بعد سے سات فوجی لاپتہ ہیں۔ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا ان سات افغان فوجیوں کو عسکریت پسندوں نے اغواء کر لیا ہے یا وہ اپنی جانیں بچانے کے لیے وہاں سے فرار ہو گئے۔ اس خونریز حملے کے بعد افغان صدر حامد کرزئی بظاہر پاکستان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دکھائی دیے۔
انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اسلام آباد میں ملکی حکومت کو دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ تیز کرنا ہو گی۔ کرزئی نے کہا کہ پاکستانی حکومت کو لازمی طور پر سنجیدہ اقدامات کرتے ہوئے پاکستانی علاقے میں افغان عسکریت پسندوں کی محفوظ پناہ گاہیں ختم کرنا ہوں گی۔ افغان طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ مختلف خبر رساں اداروں کے نام اپنے ایک ای میل پیغام میں طالبان نے کہا کہ یہ حلہ ان کی کارروائی ہے، جس میں ان کا ایک ساتھی ہلاک اور دو دیگر زخمی بھی ہوئے۔
افغانستان سے اس سال کے آخر تک غیر ملکی اتحادی دستے واپس چلے جائیں گے۔ اس پیش رفت سے عسکری فائدہ اٹھانے کے لیے افغان طالبان نے حالیہ مہینوں کے دوران اپنی مسلح کارراوئیاں تیز کر دی ہیں۔
اس سال کے آغاز سے اب تک طالبان کے ایسے حملوں میں کم از کم 84 افغان فوجی مارے جا چکے ہیں۔ اسی دوران افغان طالبان نے یہ بھی کہا ہے کہ انہوں نے اپنے زیر قبضہ امریکی فوجی بَو بیرگ ڈاہل کی اپنے ساتھیوں کے بدلے ممکنہ رہائی سے متعلق ثالثوں کے ذریعے ہونے والی بات چیت معطل کر دی ہے۔ یہ امریکی فوجی دو ہزار نو سے طالبان کے قبضے میں ہے۔