اسپورٹس گالہ کی منسوخی، گلگت بلتستان حکومت تنقید کی زد میں
6 اکتوبر 2022گلگت بلتستان حکومت کی جانب سے خواتین کے ایک اسپورٹس گالا کی طہ شدہ تقریب کو منسوخ کرنے پر کئی حلقوں کی طرف سے سخت تنقید کی جارہی ہے۔ ناقدین کا دعویٰ ہے کہ حکومت نے یہ پروگرام منسوخ کر کے انتہا پسند عناصر کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے ہیں۔یہ دو روزہ اسپورٹس گالا پانچ سےسات اکتوبر تک منعقد کیا جانا تھا لیکن حکومت نے اسے منسوخ کر کے اس کا نام خواتین کا مینا بازار اور بیداری کا پروگرام رکھ دیا، اور پھر اس میں کھیلوں کی کسی سرگرمی کا ذکر نہیں کیا گیا۔ اس نئے پروگرام کا آغاز بدھ کے روز ہو چکا ہے اور اب یہ جمعے تک چلے گا۔
مالم جبہ کے سیاحتی مقام پر ’بین الاقوامی اسکیئنگ‘ مقابلہ
واضح رہے کہ گلگت بلتستان کے چیف سیکرٹری نے 30 ستمبر کو اس اسپورٹس گالا کے انعقاد کا اعلان کیا تھا۔ اس بارے میں اپنے ایک بیان میں اس اعلی سرکاری عہدیدار کا کہنا تھا کہ دیامر سے لے کر شگر تک اس اسپورٹس گالے کی تیاریاں اپنے عروج پر ہیں۔ انہوں نے اس بارے میں چند تصاویر بھی شئیر کی تھیں، جن میں لڑکیوں کومختلف کھیلوں کے مقابلوں کی تیاری کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ لیکن ناقدین کا دعویٰ ہے کہ اس اسپورٹس گالہ کے اعلان کے بعد گلگت میں مذہبی عناصر اور مذہبی جماعتوں نے اس کے خلاف ایک مہم شروع کر دی اور اس مہم کے دباؤ میں آکر گلگت بلتستان کے وزیر اعلی کی ہدایت پر اس اسپورٹس گالا کا نام تبدیل کر دیا گیا۔
ہنزہ کی دل فریب وادی میں لڑکیوں کا فٹ بال میچ
نام کی تبدیلی
گلگت بلتستان کی حکومت کے ترجمان علی تاج نے اپنے ایک تحریری پیغام میں ڈی ڈبلیو کو چیف سیکریٹری کا ایک بیان بھجوایا۔ اس بیان کے متن کے مطابق، '' وزیر اعلی گلگت بلتستان کی ہدایت پر اسپورٹس گالا 2020ء کو مینا بازار میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ اس ایونٹ میں ذہنی بیداری کی سرگرمیاں، دستکاری اور جواہرات کی نمائش اور خواتین کاروباری افراد کی دیگر کامیابیاں شامل ہو گئیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ مینا بازار میں ماحولیاتی اور آب و ہوا کی تبدیلی کے مسائل پر رہنمائی اور مشاورت شامل ہوگی۔ اس میں خواتین کی مختلف تعلیمی سرگرمیوں کو بھی شامل کیا جائے گا۔ مجموعی طور پر یہ پروگرام اسلامی اقدار اور مقامی رسم و رواج کے مطابق منعقد کیا جائے گا۔
تنقید کا طوفان
تاہم ناقدین اور حقوق نسواں کے لیے کام کرنے والی خواتین حکومت کی حجت سے اتفاق نہیں کرتی۔ سوشل میڈیا پرجی بی کے کئی حلقے اس حکومتی فیصلے پر بھرپور تنقید کر رہے ہیں۔
پاکستان کی لڑکیاں باکسنگ کے میدان میں بھی اب پیچھے نہیں
ہنزہ سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار عامر حسین کا کہنا ہے کہ حکومت نے انتہا پسندوں اور مذہبی عناصر کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''گلگت کے ایک بڑے مذہبی رہنما نے حکومت کو متنبہ کیا تھا کہ مذہبی تنظیمیں اس اسپورٹس گالہ کی مخالفت کریں گی اور اس کی مزاحمت کریں گی۔ اس مولانا نے سپورٹس گالا کے خلاف ایک فتویٰ بھی جاری کیا تھا اور اسے اسلام اور مقامی روایات کے خلاف قرار دیا تھا۔ اس لئے حکومت مذہبی عناصر کے دباؤ میں آ گئی اور اس نے اس اسپورٹس گالا کا نام تبدیل کردیا۔ جواس ایونٹ کی منسوخی کے مترادف ہے کیونکہ اس میں اب کوئی اسپورٹس نہیں ہے۔‘‘
عامر حسین کے مطابق کچھ مذہبی تنظیموں نے چھوٹے موٹے مظاہرے بھی کیے تھے۔ ''لیکن گلگت بلتستان کے زیادہ تر عوام اس سے خوش تھے۔‘‘
سیاسی مقاصد
واضح رہے کہ گلگت بلتستان میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے جبکہ وہاں مسلم لیگ نون اور جمعیت علماء اسلام فضل الرحمن گروپ حزب اختلاف میں ہیں۔
کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ بعض سیاسی عناصر کھیل کی اس تقریب کو سیاسی مقاصد کے لئے بھی استعمال کر رہے ہیں۔ عامر حسین اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ ''گلگت بلتستان کے سابق وزیراعلی حافظ حفیظ الرحمن، جو مسلم لیگ نون سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے مذہبی حلقوں سے بہت قریبی مراسم ہیں جب کہ جمیعت علماء اسلام فضل الرحمان گروپ کے مولوی بھی اس سپورٹس گالا کی مخالفت میں آگے آگے تھے۔ تو یہ تاثر ہے کہ انہوں نے ایک منظم طریقے سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے لیے مشکلات کھڑی کرنے کے لیے اسپورٹس گالہ کو سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے استعمال کیا ہے۔‘‘
گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والی تجزیہ نگار حبیبہ سلمان کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے مسلم لیگ نون کا کردار بھی مثبت نہیں تھا۔ انھوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا،'' مذہبی عناصر نے حکومت کو دھمکی دی تھی۔ اس کے علاوہ مسلم لیگ نون سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون رکن برائے قانون ساز اسمبلی نے بھی اس کے خلاف آواز اٹھائی تھی جبکہ زیادہ تر اراکین اس کے حق میں تھے لیکن بعد میں دباؤ کی وجہ سے اس کا نام مینا بازاررکھ دیا گیا۔‘‘