اسلام پسند طلبا نے جامعہ الازہر میں آگ لگا دی
28 دسمبر 2013حکام کے مطابق پولیس یونیورسٹی میں اس وقت داخل ہوئی جب اخوان المسلمون کے حامی طالب علموں نے شعبہء کامرس کی عمارت کو نذر آتش کر دیا۔ اس وقت وہاں طالب علم ایک امتحان دے رہے تھے۔
قاہرہ کی جامعہ الازہر میں مشتعل طلبا اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ایسے وقت پیش آئی ہیں جب اخوان المسلمون کے خلاف کریک ڈاؤن شدت سے جاری ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ایک طالب علم شیما منیر نے مرنے والے طالب علم کا نام خالد الحداد بتایا ہے جو اخوان المسلمون کا حامی تھا۔
سرکاری اخبار الاہرام کے مطابق سکیورٹی فورسز نے ہفتے کو اخوان المسلون کے حامی طالب علموں کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے شیل فائر کیے۔ اس اخبار کے مطابق وہ اپنے ساتھی طالب علموں کو امتحان دینے کے لیے یونیورسٹی میں داخل ہونے سے روک رہے تھے۔
مظاہرین نے پولیس پر پتھر برسائے اور ٹائروں کو آگ لگا دی۔ روزنامہ الاہرام نے وزارتِ صحت کے ایک اہلکار کے حوالے سے بتایا ہے کہ چار طالب علم زخمی بھی ہوئے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ یونیورسٹی کی دو عمارتوں کو آگ لگائی گئی۔ روئٹرز کے مطابق سرکاری ٹیلی وژن پر نشر کی گئی ویڈیو میں کامرس فیکلٹی کی عمارت سے سیاہ دھواں اٹھتا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ ٹی وی نے ان طالب علموں کو دہشت گرد قرار دیا اور کہا کہ انہوں نے زراعت کی فیکلٹی کو بھی نذرِ آتش کر دیا۔
وزارتِ داخلہ نے ای میل کے ذریعے ایک بیان جاری کیا ہے جس کے مطابق پولیس نے 60 طالب علموں کو گرفتار کر لیا ہے، جن کے قبضے سے دیسی ساختہ ہتھیار اور پٹرول بم برآمد ہوئے ہیں۔ جھڑپوں کے بعد یونیورسٹی میں صورتِ حال معمول پر آ گئی اور امتحان شروع ہو گیا۔
مصر میں آئندہ ماہ نئے آئین کی منظوری کے لیے ریفرنڈم ہونے والا ہے جو پارلیمانی اور صدارتی انتخابات کی راہ ہموار کرے گا۔ روئٹرز کے مطابق فوج کی حمایت یافتہ حکومت اس ریفرنڈم سے قبل مخالفین پر قابو پانے کے درپے دکھائی دیتی ہے۔ ابھی ایک روز قبل ہی مصر بھر میں پُر تشدد واقعات کے نتیجے میں پانچ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ وزارتِ داخلہ کے مطابق جمعے کو مختلف شہروں میں 265 افراد کو گرفتار کیا گیا۔
حکومت نے حال ہی میں اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم بھی قرار دیا ہے۔ اس حوالے سے ہیومن رائٹس واچ نے ہفتے کو ایک بیان میں کہا کہ قاہرہ حکومت کے اس فیصلے کی وجہ سیاسی ہے۔ انسانی حقوق کی اس تنظیم کے مطابق اس کے ذریعے حکومت اخوان المسلمون کی تمام سرگرمیاں روکنا چاہتی ہے۔ نیویارک میں قائم اس تنظیم کی سارہ وِٹسن کا کہنا ہے کہ بغیر تفتیش اور ثبوت کے اخوان المسلمون پر اُنگلی اٹھانے میں حکومت جو تیزی دکھا رہی ہے، اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک بڑی اپوزیشن تحریک کو دبانا چاہتی ہے۔