اسلام مخالف ولڈرز بھی ہم فکر جرمن تنظیم کی طاقت نہ بن سکا
14 اپریل 2015اپنے اس خطاب میں وِلڈرز نے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی اُس تقریر کا مذاق بھی اڑایا، جس میں اُنہوں نے کہا تھا کہ مسلمان ’جرمنی کا حصہ‘ ہیں۔ وِلڈرز نے کہا کہ وہ میرکل کو اپنے ساتھ ہالینڈ لے جانے کے لیے تیار ہیں، جس پر ریلی کے شرکاء نے ’گو میرکل گو‘ کے نعرے لگانا شرع کر دیے۔ شرکاء میں سے زیادہ تر ادھیڑ عمر شہری تھے۔ چند ایک کے ہاتھوں میں ایسے بینرز تھے، جن پر لکھا تھا کہ ’یورپ کی اسلامائزیشن بند کی جائے‘۔
جہاں ڈریسڈن ریلی منظم کرنے والی اسلام مخالف جرمن تنظیم پیگیڈا نے تیس ہزار مظاہرین جمع کرنے کا اعلان کیا تھا، وہاں پیر کی شام منعقدہ اس ریلی میں مقامی میڈیا کے مطابق شرکاء کی تعداد مشکل سے دَس ہزار کے قریب رہی۔ گیئرٹ وِلڈرز نے کہا:’’آپ کی چانسلر کہتی ہیں کہ مسلمان جرمنی کا حصہ ہیں اور مَیں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا وہ درست کہتی ہیں؟ وہ درست نہیں کہی رہیں۔‘‘
صرف نو روز پہلے جرمن شہر ٹروئے گلِٹس میں سیاسی پناہ کے متلاشیوں کے ایک مرکز کے خلاف آتش زنی کی واردات عمل میں آئی۔ اس واقعے کے بعد سے ہر زبان پر تارکینِ وطن کی جانب جرمن قوم کے طرزِ عمل کا ذکر سنائی دے رہا ہے۔ آتش زنی کی اس واردات کے پیچھے نیو نازیوں کا ہاتھ ہونے کا شبہ کیا جا رہا ہے تاہم پیگیڈا (پیٹریاٹک یورپینز اگینسٹ دی اسلامائزیشن آف دی ویسٹ) نیو نازیوں سے لاتعلقی کا اعلان کرتی چلی آ رہی ہے۔
آتش زنی کی یہ واردات اپنی نوعیت کی پہلی واردات نہیں تھی تاہم اس نے پورے جرمنی کو ہلا کر رکھ دیا، خاص طور پر ان حالات میں کہ اس ملک میں سیاسی پناہ کے خواہاں غیر ملکیوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ جہاں 2014ء میں پورے سال کے دوران دو لاکھ غیر ملکیوں نے جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواستیں دی تھیں ، وہاں 2015ء کے پہلے تین مہینوں کے اندر اندر جرمنی میں ایسی پچاسی ہزار درخواستیں دائر کی گئیں۔
میرکل اور جرمنی کو تارکینِ وطن کی ضرورت ہے کیونکہ عمر رسیدہ جرمن شہریوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور اگلے پندرہ برسوں کے اندر اندر کام کرنے کے قابل آبادی میں چھ ملین سے زیادہ کمی ہوتی نظر آ رہی ہے۔ تاہم جب میرکل نے اس سال جنوری میں پیگیڈا کے بڑھتے ہوئے مظاہروں کے رد عمل میں یہ کہا کہ مسلمان جرمنی کا حصہ ہیں تو یہ بات اُن کی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین کے چند ساتھیوں کو بھی زیادہ اچھی نہیں لگی تھی۔
پیگیڈا کا موقف یہ ہے کہ آئین اور قانون کا احترام کرنے والے مسلمانوں سے اُسے کوئی شکایت نہیں ہے لیکن چند مسلمان یہاں شریعت لانا چاہتے ہیں اور تشدد کے کلچر کو رواج دینا چاہتے ہیں۔ ایک ولندیزی باپ اور ایک انڈونیشی ماں کے بیٹے گیئرٹ وِلڈرز نے پیر کو اپنے خطاب میں کہا کہ یورپ کی سڑکوں پر پھرنے والے ایسے مسلمان ’ٹِک ٹِک کرتے ٹائم بموں کی طرح‘ ہیں۔
پیگیڈا کی طرز پر یورپ بھر میں اسلام مخالف مظاہرے ہونا شروع ہو گئے تھے تاہم جب سے اس تنظیم کے سربراہ لُٹس باخمان کی ہٹلر کی طرح کی مونچھوں والی تصویر منظرِ عام پر آئی ہے، تب سے اس کی مقبولیت میں تیزی سے کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ اگرچہ لُٹس باخمان نے کہا تھا کہ وہ تصویر اُس نے محض ایک مذاق کے طور پر اتروائی تھی تاہم اس تصویر کی اشاعت کے بعد سے پیگیڈا تقسیم ہو گئی۔ اس کے باوجود لُٹس باخمان اس تحریک کی نمایاں شخصیات میں سے ایک ہے اور پیر کی ریلی میں اُسے بھی گیئرٹ وِلڈرز کے ساتھ اسٹیج پر بیٹھے دیکھا گیا۔ اسٹیج پر تاتیانا فیسٹرلنگ بھی موجود تھیں۔ یہ خاتون سیاستدان جون میں ڈریسڈن کے میئر کے لیے ہونے والے انتخابات میں امیدوار ہیں۔ اگرچہ اُن کی کامیابی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں تاہم کسی بھی طرح کے انتخابات میں پیگیڈا کی شرکت کا یہ پہلا موقع ہو گا۔
اُدھر گیئرٹ وِلڈرز کی اپنی مقبولیت کا سورج بھی گہنا چکا ہے۔ ابھی مارچ میں منعقدہ صوبائی انتخابات میں وِلڈرز کی فریڈم پارٹی کو بری طرح سے شکست اٹھانا پڑی تھی۔
پیر ہی کو پیگیڈا کے خلاف بھی ڈریسڈن ہی میں ایک اجتماع منظم کیا گیا۔ جرمن ٹیلی وژن کے مطابق اس اجتماع میں اندازاً تین ہزار افراد نے شرکت کی۔