اسلام آباد کی کم ہوتی ہوئی ہریالی و سبزہ
11 دسمبر 2022واضح رہے کہ انسٹیٹیوٹ آف اربنزم کے تحت منعقد ہونے والے ایک سیمینار کے شرکا کو منگل کے روز بتایا گیا کہ 1973 ء سے لے کر سن دو ہزار تک ک تقریبا 153 اسکوائر کلومیٹر کا ایریا، جہاں کبھی ہریالی، سبزہ اور نباتات ہوتے تھے، وہ ختم ہوگیا ہے۔
عائشہ مجید کے مطابق بڑھتی ہوئی آبادی، رہائشی علاقوں کا قیام، ترقیاتی کام، سٹرکوں کی تعمیر، انڈرپاسیز کی کھدائی، شاہراوں کی توسیع، کمرشل علاقوں کی تعمیر اور تجارتی تعمیراتی منصوبے وہ چند عوامل ہیں، جو اس ہریالی کے کم ہونے کے اسباب میں سے چند ہیں۔
’سبز سونا‘: پاکستان میں کروڑوں نئے درخت
عائشہ مجید کا دعوٰی تھا کہ مجموعی طور پر تین فیصد ہریالی کا علاقہ صرف 19 بڑے سڑکوں کی تعمیر یا توسیع یا ترمیم کی وجہ سے ختم ہوا ہے۔ اور اگر اس میں گرین بیلٹس پر قائم پارکنگ کو بھی شامل کر لیا جائے، تو پھر یہ شرح مزید بڑھ سکتی ہے۔ نیو ایریا، جس جگہ بنایا جا رہا ہے، وہ ہریالی سے بھرا ہوا تھا جبکہ سری نگر ہائی وے اور اسلام آباد ایکسپریس وے پر بھی کئی ایسے مقامات، جو ماضی میں سبزے اور نباتات سے بھرے ہوئے تھے۔
ماحولیاتی بحران، پاکستان اپنی ’بقاء کے مسئلے‘ سے کیسے نمٹ رہا ہے؟
تاہم کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا کہنا ہے کہ سارے ترقیاتی کام ماسٹر پلان کے تحت ہوئے ہیں اور گرین بیلٹ کو ختم نہیں کیا گیا ہے۔ سی ڈی اے کے ایک افسر سردار خان زمری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' یہ تاثر غلط ہے کہ ہم نے گرین بیلٹ یا سبزے کو نقصان پہنچایا ہے۔ نیا بلیو ایریا ماسٹر پلان کے تحت بن رہا ہے اور اس میں ابھی مزید توسیع ہونی ہے۔ بالکل اسی طرح مختلف انڈرپاسیز یا سڑکوں میں جو توسیع ہوئی ہے، اس میں بھی ماحولیاتی قواعد کا خیال کیا گیا ہے۔ جب ماحول کے لیے کام کرنے والے کارکنان عدالت یا متعلقہ اداروں میں پہنچے، تو سی ڈی اے نے وہاں پر صحیح طریقے سے ماسٹر پلان کی وضاحت کی۔‘‘
زیرو کاربن واٹر پمپوں سے پاکستان کے بنجر پہاڑ سرسبز ہوتے ہوئے
سابق سیکریٹری برائے پلاننگ فضل اللہ قریشی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اسلام آباد میں ہریالی اور نباتات کم ہوئے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ کسی قانون کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' ستر کی دہائی میں اسلام آباد کی آبادی بہت کم تھی۔ اب جب آبادی پھیلے گی تو نئی آبادیاں بھی قائم کرنا پڑیں گی۔ اس کے لیے وہ جگہیں، جو ہری بھری ہیں لیکن سرکار کی طرف سے متعین کردہ گرین بیلٹ کے زمرے میں نہیں آتی، ان کو ختم کرنا پڑے گا۔
سابق سربراہ محمکہ جنگلات ناصر محمود کا کہنا ہے کہ سرکار کی طرف سے متعین کردہ جنگلات میں کمی نہیں آئی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' یہ غلط تاثر ہے کہ ہر سر پھرے علاقے کو ختم کرنا، گرین بیلٹ کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سی ڈی اے نے دارالحکومت کے کئی علاقوں میں میں کوئی ہاؤسنگ اسکیم تعمیر کرنے کے لیے زمین حاصل کی اور پھر اس زمین پر 30 تا 40 سال کوئی تعمیر نہیں ہوئی۔اسی دروان اس علاقے میں قدرتی طور پر ہریالی آگئی یا کسی نے درخت لگا دیے، لیکن یہ منطقی بات ہے کہ جب اس علاقے کو تعمیر کیا جائے گا، تو ہریالی کو ختم کرنا پڑے گا کیونکہ وہ ہریالی ماسٹر پلان کا حصہ نہیں ہے۔‘‘