اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور: سوال بہت سے مگر جواب کوئی نہیں
28 جولائی 2023جنوبی پنجاب کی سب سے بڑی یونیورسٹی میں 'طالبات ویڈیوز اسکینڈل‘ سے شروع ہونے والا بحران سنگین صورت اختیار کرتا جا رہا ہے اور اس معاملے کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کم زکم آٹھ تحقیقاتی ٹیموں نے نئے انکشافات سامنے آنے پر اپنی تفتیش کا دائرہ وسیع کر دیا ہے۔
پولیس کی طرف سے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپورکے دو اعلٰی افسران کے مبینہ طور پر منشیات اور ہراسانی کے واقعات میں ملوث ہونے اور ان کے موبائل فونز سے طالبات کی سینکڑوں قابل اعتراض ویڈیوز برآمد ہونے کے بعد سے ہر روز نئے انکشافات کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔
اینٹی نارکوٹس فورس کی ایک ٹیم نے یونیورسٹی کے شعبہ امور طلبہ میں آکر کیمپس میں منشیات کے استعمال کی خبروں کے حوالے سے متعدد افراد سے پوچھ گچھ کی ہے۔ وزیراعلی پنجاب کی تحقیقاتی کمیٹی نے بھی یونیورسٹی کیمپس پہنچ کر متعلقہ لوگوں کے انٹرویوز کرکے طالبات کی ویڈیوز اور منشیات کے استعمال کی شکایات کے بارے میں تفصیلات حاصل کیں۔
ہائیر ایجوکیشن اسلام آباد اور ایک خفیہ ادارے کی ٹیمیں بھی اس اسکینڈل کی تحقیقات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسلامیہ یونیورسٹی کی طرف سے اس اسکینڈل کی تحقیقات کے لئے قائم کی گئی دو تحقیقاتی کمیٹیوں کو جنوبی پنجاب کے ھائیر ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کی تحقیقاتی کمیٹی میں ضم کرکے ایک بڑی 'جوائنٹ ایکشن کمیٹی‘ بنا دی گئی ہے، جس نے اپنی تحقیقات کا دائرہ وسیع کرکے یونیورسٹی کے اندر اور باہر موجود مشتبہ افراد کے بارے میں تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔
ابتدائی تحقیقات کے نتائج
اس کمیٹی کے ایک رکن نے ڈی ڈبلیو کو اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ابتدائی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جو واقعہ بھی پیش آیا، وہ بڑے پیمانے پر نہیں تھا ۔ اس رکن کے بقول اس واقعے کو یونیورسٹی کے باہر بیٹھے ہوئے عناصر نے غیر معمولی ہوا دی تھی۔
اس ضمن میں بہاولپور کے نجی تعلیمی اداروں کے مالکان اور وائس چانسلر شپ کے خواہش مند کچھ پروفیسروں نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ اس رکن کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسلامیہ یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات کی تعداد تیرہ ہزار سے بڑھ کر ساٹھ ہزار ہونے پر بہاولپور کے نجی تعلیمی ادارے یونیورسٹی انتظامیہ سے نالاں ہیں۔
طالبات اور ان کے والدین پریشان
اس سکینڈل کے منظر عام پر آنے سے ایک طرف یونیورسٹی میں جاری نئے داخلوں کا سلسلہ بری طرح متاثر ہو چکا ہے جبکہ دوسری طرف یہاں پسماندہ علاقوں سے اعلی ٰتعلیم کے حصول کے لیے آنے والی ان ہزاروں طالبات کے والدین خوف زدہ ہو چکے ہیں، جو اپنی بیٹیوں کوحصول تعلیم کے لیے باہر بھجوانے پر شاکی رہتے ہیں۔اسلامیہ یونیورسٹی کے تمام کیمپسز میں تعلیم پانے والی بچیوں کی تعداد پچیس ہزار کے لگ بھگ بتائی جا رہی ہے۔
ڈی ڈبلیو کے رابطہ کرنے پراسلامیہ یونیورسٹی کے ترجمان شہزاد خالد نے بتایا کہ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ اس اسکینڈل کی وجہ سے کتنی طالبات اپنا تعلیمی سلسلہ منقطع کرسکتی ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ انتظامیہ نے اس یونیورسٹی کی خواتین اساتذہ پر مشتمل ایک ''پیرنٹس لائزون کمیٹی‘‘ تشکیل دی ہے جو والدین سے رابطہ کر کےان کو حقائق سے آگاہ کر رہی ہے۔ ''میرے خیال میں تحقیقاتی کمیٹیوں کے نتائج سامنے آنے پر بھی لڑکیوں کے والدین کو اطمینان ہو گا کہ یہ واقعہ ویسا نہیں تھا جیسا میڈیا نے بنا دیا‘‘
قائم مقام وائس چانسلر کا موقف
اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے قائم مقام وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر نوید اختر نے عوام اور میڈیا سے اپیل کی ہے کہ وہ یونیورسٹی کے بارے میں بلا تحقیق غلط خبریں پھیلانے سے گریز کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی کے ساٹھ ہزار طلبہ و طالبات کے ساتھ اب اساتذہ اور ملازمین کی تعداد میں بھی کافی اضافہ ہو چکا ہے۔'' اتنی بڑی تعداد میں کسی شرپسند کا یونیورسٹی میں در آنا خارج از امکان نہیں ہے لیکن یونیورسٹی میں منشیات کی خرید وفروخت میں ملوث افراد اور طالبات کو ہراساں کرنے والوں کو ہر گز برداشت نہیں کیا جائے گا‘‘
اصل واقعہ کیا تھا؟
یہ معاملہ اس وقت شروع ہوا جب بہاول پور میں چند ہفتے قبل منشیات سمیت گرفتار ہونے والے ڈولفن پولیس کے ایک اہلکار کے فون سے نامناسب ویڈیوز ملیں۔ تحقیقات کے دوران پتا چلا کہ ایک گروہ یونیورسٹی کی طالبات کو بلیک میل کرکے ان کی قابل اعتراض ویڈیوز بنانے کے دھندے میں ملوث ہے۔
بعدازاں یونیورسٹی کے ڈائریکٹر فنانس ڈاکٹر ابوبکر اور چیف سکیورٹی انچارج میجر (ر) اعجاز شاہ کے خلاف مقدمات درج کرکے انہیں بھی گرفتار کر لیا گیا۔ ان کے موبائل فون سے ملنے والی سینکڑوں قابل اعتراض ویڈیوز اور تصاویرکے بارے میں پولیس حکام کا خیال ہے کہ یہ اسلامیہ یونیورسٹی کی طالبات کی ہیں۔
پولیس کے مطابق ان تصاویر اور ویڈیوز کو فرانزک کے لئے بھجوا دیا گیا ہے اور اس کا نتیجہ آنے کے بعد ان سے متعلقہ دفعات کو مقدمات میں شامل کیا جائے گا۔ ایک وفاقی وزیر کے بیٹے کا نام بھی اس اسکینڈل سے جوڑا جا رہا ہے۔
ایک طالب علم عرفان احمد (فرضی نام) نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ چیف سکیورٹی افسر میجر (ر)اعجاز شاہ کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ وہ سول کپڑوں میں کلاسوں اور دیگر مقامات پر تعینات کیے جانے والے خفیہ سیکورٹی اہلکاروں کی بہت بڑی تعداد کے ذریعے طلبہ و طالبات کی خفیہ ویڈیوز بنواتے اور انہیں کارروائی کے لئے یونیورسٹی انتظامیہ کو دینے کی بجائے طالبات کو بلیک میل کرنے کے لئے استعمال کرتے تھے۔
یونیورسٹی کے ایک سابق استاد اور سابق ڈائریکٹر پروفیسر شاکر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ طالبات کے ساتھ نامناسب طرز عمل کی شکایات یونیورسٹی انتظامیہ کو ملتی رہی ہیں۔
سوالات ہی سوالات
پاکستان کے ایک سینئیر کالم نویس نعیم مسعود نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس واقعے میں بہت سے سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے، ان کے بقول برآمد ہونے والی پانچ ہزار پانچ سو ویڈیوز کہاں ہیں ''انہیں کیوں سامنے نہیں لایا جا رہا انہیں کیوں عدالت کے مانگنے پر پیش نہیں کیا گیا۔ پولیس کی حراست میں موجود تفتیشی مواد سوشل میڈیا تک کیسے پہنچ گیا۔ یہ واقعہ اس وقت کیوں سامنے آیا جب وائس چانسلر اطہر محبوب کی ملازمت میں توسیع کا کیس فیصلہ کن مرحلے میں تھا۔‘‘
کیا اس اسکینڈل میں منظم مافیا ملوث ہے؟
جنوبی پنجاب کے حالات پر گہری نظر رکھنے والے ایک صحافی میاں غفار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ بات درست ہے کہ ایک منظم مافیا اس اسکینڈل میں ملوث ہے۔طالبات کو ہراساں یا بلیک میل کرنے کے واقعات کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن پاکستان کے غریب علاقوں کی بچیوں میں اتنا اعتماد نہیں ہوتا کہ وہ ایسی باتیں گھر والوں کو بتا سکیں اور والدین بھی بدنامی کے ڈر سے قانون کی مدد نہیں لیتے۔'' اب بھی مجھے لگتا ہے کہ اس اسکینڈل میں ملوث با اثرملزمان کو کبھی قرار واقعی سزا نہیں مل سکے گی۔‘‘