فلسطینیوں کی جبری بے دخلی 1967ء کے بعد بلند ترین سطح پر
وقت اشاعت 15 جولائی 2025آخری اپ ڈیٹ 15 جولائی 2025آپ کو یہ جاننا چاہیے
- مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی جبری بے دخلی 1967ء کے بعد بلند ترین سطح پر
- گزشتہ چھ ہفتوں کے دوران غزہ پٹی میں امدادی مراکز میں یا ان کے ارد گرد کم از کم 875 ہلاکتیں
- پاکستان میں اس مرتبہ مون سون بارشوں کی وجہ سے سیلابی ریلوں اور تودے گرنے کے نتیجے میں مجموعی ہلاکتوں کی تعداد 111 ہو چکی ہے
- اسرائیلی فوج کی مشرقی لبنان میں حزب اللہ کی ایلیٹ ’’رضوان فورس‘‘ کے ٹھکانوں پر تازہ حملے
- شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن سمٹ کے موقع پر ایران، روس اور چین کے حکام کی خصوصی ملاقاتیں
اسرائیل کے زیر قبضہ علاقوں سے فلسطینیوں کی بے دخلی ریکارڈ سطح تک پہنچ گئی، اقوام متحدہ
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کی سطح سن 1967 کے بعد سے اب تک کی ریکارڈ سطح تک بڑھ چکی ہے۔ جنوری سن 2025 میں وہاں اسرائیلی فوجی کارروائیاں شروع ہونے کے بعد سے اب تک تقریباً 30 ہزار فلسطینی بے گھر ہو چکے ہیں جبکہ 1,400 گھروں کو مسمار کرنے کے احکامات جاری کیے گئے۔
اسرائیل کی طرف سے مقبوضہ مغربی اردن کے علاقے میں ’’آئرن وال‘‘ نامی فوجی آپریشن کے اثرات پر تحفظات ظاہر کرتے ہوئے اقوام متحدہ نے اس صورتحال کو ممکنہ ’’نسلی تطہیر‘‘ اور ’’انسانیت کے خلاف جرم‘‘ قرار دے دیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ وہاں یہودی آباد کاروں کے حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے، جس سے صرف جون میں 96 فلسطینی زخمی ہوئے۔ تازہ تشدد کی وجہ سے اکتوبر سن 2023 سے اب تک مغربی کنارے میں 964 فلسطینی اور 53 اسرائیلی ہلاک ہو چکے ہیں۔
اقوام متحدہ نے منگل کے روز اعداد و شمار جاری کرتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ مغربی کنارے میں بڑے پیمانے پر بے دخلی کا نیا سلسلہ تقریباً 60 سال قبل اسرائیل کے فلسطینی علاقوں پر قبضے کے بعد سے اب تک کی اپنی ریکارڈ سطح تک پہنچ چکا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی حقوق کے ترجمان تمین الخیتان کے بقول، ’’مقبوضہ علاقے میں شہری آبادی کو مستقل طور پر بے دخل کرنا غیر قانونی منتقلی کے مترادف ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ رواں سال کے پہلے نصف حصے میں مغربی کنارے میں اسرائیلی آبادکاروں کے 757 حملے ریکارڈ کیے گئے، جو سن 2024 کے اسی عرصے کے مقابلے میں 13 فیصد زیادہ بنتے ہیں۔
سات اکتوبر 2023 کو فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کے اسرائیل میں دہشت گردانہ حملے اور پھر اسرائیل کی ابھی تک جاری جوابی عسکری کارروائی کے دوران مقبوضہ ویسٹ بینک میں بھی تشدد بہت بڑھ چکا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق تب سے اب تک مقبوضہ مغربی کنارے، بشمول مشرقی یروشلم، میں کم از کم 964 فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔ اسی عرصے میں فلسطینیوں کے مبینہ حملوں یا مسلح جھڑپوں میں 53 اسرائیلی مارے جا چکے ہیں، جن میں سے 35 مغربی کنارے میں اور 18 اسرائیل میں ہلاک ہوئے۔
’’ايک گھنٹہ کی بارش نے حيدرآباد ڈبو ديا‘‘ بجلی بند نالے ابل پڑے، شہری پريشان
پاکستان کے صوبہ سندھ کے دوسرے بڑے شہر حيدرآباد اور اس کے گرد نواح ميں شديد بارش کے بعد نشيبی علاقوں ميں طغيانی، لطيف آباد، قاسم آباد کی گلياں ندی نالوں کا منظر پيش کر رہی ہیں۔
محکمہ موسميات کے مطابق ايک گھنٹہ ميں 94 ملی ميٹر بارش ہوئی۔ بارش کے باعث جہاں نشيبی علاقوں ميں پانی جمع ہوگيا، وہيں بجلی کا نظام بھی درہم برہم ہو گيا۔ حيدرآباد شہر کو بجلی فراہم کرنے والے ادارے حيسکو کے مطابق گزشتہ روز بارش کے دوران حیسکو کے 152 فیڈرز میں سے 140 ٹرپ کر گئے تھے۔ بتایا گیا ہے کہ 135 فیڈرز کی بجلی بحال کردی گئی، 5 ابھی تک بند ہیں۔
حیدر آباد میں ہمارے رپورٹر رفعت سعید نے آنکھوں دیکھا حال بتاتے ہوئے کہا کہ جب کلاوڈ برسٹ ہوا تو ایک گھنٹے میں ہی حیدر آباد ڈبوا ہوا معلوم ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ بارش کی شدت اتنی تیز تھی کی فوری امدادی کارروائیاں بھی بے سود ثابت ہوئیں جبکہ بالخصوص شہر کے نشیبی علاقے فوری طور پر زیر آب آ گئے۔ محکمہ موسمیات نے جولائی اور اگست میں بارشوں کا سلسلہ جاری رہنے کی پیش گوئی کی ہے۔
غزہ پٹی کے امدادی مراکز کے قریب چھ ہفتوں میں 875 ہلاکتیں ہوئیں، اقوام متحدہ کا انکشاف
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے منگل کے روز کہا کہ اس نے گزشتہ چھ ہفتوں کے دوران غزہ پٹی میں امدادی مراکز میں یا ان کے ارد گرد کم از کم875 ہلاکتیں ریکارڈ کی ہیں۔ یہ مراکز امریکی اور اسرائیلی حمایت یافتہ ’’غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن‘‘ (جی ایچ ایف) اور اقوام متحدہ سمیت دیگر امدادی اداروں کے ذریعے چلائے جا رہے ہیں۔
زیادہ تر ہلاکتیں GHF کے مراکز کے آس پاس ایسے افراد کی ہوئیں، جو امداد حاصل کرنے کی کوشش میں تھے۔ اس کے علاوہ کم از کم 201 افراد دیگر مقامات پر امداد حاصل کرنے کی کوششوں کے دوران بھی ہلاک ہو گئے۔
جی ایچ ایف غزہ پٹی میں امدادی سامان پہنچانے کے لیے نجی امریکی سکیورٹی اور لاجسٹکس کمپنیوں کا استعمال کرتی ہے۔ یہ فاؤنڈیشن اقوام متحدہ کے زیر انتظام نظام کو زیادہ تر نظرانداز ہی کرتی ہے۔ اسرائیل کا الزام ہے کہ جی ایچ ایف کے علاوہ دیگر امدادی سینٹرز حماس کے جنگجوؤں کو غزہ پٹی کے شہریوں کے لیے بھیجی گئی امداد لوٹنے سے نہیں روکتے۔ تاہم حماس اس الزام کی تردید کرتی ہے کہ وہ شہریوں کے لیے روانہ کردہ امداد لوٹ لیتی ہے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے بھی ایسے اسرائیلی الزامات کو مسترد کیا جاتا ہے۔
ادھر یورپی یونین کی بحرانوں سے متعلق انتظامی امور کی کمشنر حجہ لحبیب نے کہا ہے کہ اسرائیل نے کچھ مثبت اقدامات کیے ہیں لیکن ابھی تک غزہ پٹی میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے اس معاہدے کو مکمل طور پر نافذ نہیں کیا گیا، جو اسرائیل نے یورپی یونین کے ساتھ کر رکھا ہے۔
لحبیب نے برسلز میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’ہم نے کچھ مثبت پیش رفت دیکھی ہے۔ یہ سچ ہے کہ کچھ ٹرک غزہ پٹی میں داخل ہو سکے ہیں۔ لیکن ہمیں ان کی صحیح تعداد معلوم نہیں اور یہ بات واضح ہے کہ یہ معاہدہ ابھی تک مکمل طور پر نافذ نہیں کیا گیا۔‘‘
پاکستان میں مون سون کی بارشوں سے تباہی، درجنوں بچے بھی ہلاک
پاکستان میں اس مرتبہ مون سون بارشوں کا سلسلہ شمال مشرقی علاقوں میں جون سے ہوا، جو اب ملک بھر میں پھیل چکا ہے۔ ان بارشوں کی وجہ سے سیلابی ریلوں اور تودے گرنے کے نتیجے میں مجموعی ہلاکتوں کی تعداد 111 ہو چکی ہے۔
سب سے زیادہ ہلاکتیں صوبہ پنجاب میں ہوئی ہیں، جہاں متعدد شہروں کی سڑکیں سیلابی نالوں کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ حکام نے بتایا ہے کہ پنجاب میں کم ازکم چالیس افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
پاکستان میں آفات سے نمٹنے والے خصوصی ادارے این ڈی ایم اے نے بتایا ہے کہ دو سو سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ محکمہ موسمیات نے جولائی اور اگست میں بارشوں کا سلسلہ جاری رہنے کی پیش گوئی کی ہے۔
اسرائیل کے مشرقی لبنان میں فضائی حملے: رضوان فورس کے مراکز نشانہ، جنگ بندی خطرے میں
اسرائیل کی دفاعی فوج نے منگل کے روز اعلان کیا کہ اس نے مشرقی لبنان میں حزب اللہ کی ایلیٹ ’’رضوان فورس‘‘ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔ یہ کارروائی ایران کے حمایت یافتہ اس گروہ اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے باوجود کی گئی۔
اسرائیلی فوج کے ایک بیان میں کہا گیا، ’’اسرائیلی فضائیہ کے لڑاکا طیاروں نے لبنان کے علاقے بقاع میں حزب اللہ کے دہشت گردانہ اہداف پر متعدد فضائی حملے کیے ہیں۔‘‘
بیان میں مزید کہا گیا، ’’جن عسکری کمپاؤنڈز کو نشانہ بنایا گیا، وہ حزب اللہ کی جانب سے دہشت گردوں کو تربیت دینے اور اسرائیلی فوج اور ریاست اسرائیل کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی کے لیے استعمال کیے جا رہے تھے۔‘‘
اسرائیلی فوج کے مطابق ستمبر 2024ء میں ایک فوجی کارروائی کے دوران بیروت اور جنوبی لبنان میں رضوان فورس کے کمانڈروں کو ’’ختم‘‘ کر دیا گیا تھا، تاہم اس کے بعد سے حزب اللہ کی یہ فورس اپنی عسکری صلاحیتیں بحال کرنے کی کوششوں میں ہے۔
گزشتہ نومبر میں طے پانے والی جنگ بندی کا مقصد اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان ایک سال سے جاری کشیدگی کا خاتمہ تھا، جس دوران فریقین کے مابین دو ماہ تک جنگ بھی ہوئی تھی۔ اس جنگ نے حزب اللہ کو شدید نقصان پہنچایا تھا، تاہم حالیہ اسرائیلی فضائی حملے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ دوطرفہ کشیدگی بدستور برقرار ہے۔
جنگ بندی معاہدے کے تحت:
حزب اللہ کو اپنے جنگجوؤں کو دریائے لیطانی کے شمال میں، اسرائیلی سرحد سے کم از کم 30 کلومیٹر (20 میل) دور منتقل کرنا تھا۔
اس کے بعد لبنانی فوج اور اقوام متحدہ کے امن دستے (UNIFIL) کو خطے میں واحد مسلح قوت کے طور پر تعینات کیا جانا تھا۔
اسرائیل کو اپنی فوج مکمل طور پر واپس بلانا تھی، تاہم اس نے اب بھی لبنانی علاقے میں پانچ اسٹریٹيجک مقامات پر اپنی فوجیں تعینات کر رکھی ہیں۔
شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن کی سمٹ اس بار زیادہ اہم کیوں؟
اسرائیل کے ساتھ بارہ روزہ حالیہ فضائی جنگ کے بعد ایران کی کوشش ہے کہ وہ اپنے اہم اتحادی ممالک روس اور چین کی حمایت حاصل کرے۔ اس مقصد کی خاطر ایرانی حکام شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن (ایس سی او) کی سمٹ کے موقع پر روسی اور چینی حکام سے ملاقاتیں کریں گے۔
روسی اور ایرانی وزرائے خارجہ نے بتایا ہے کہ وہ چینی حکام کے ساتھ ملاقاتیں کریں گے کیونکہ چین بھی اس خطے میں ایک اہم طاقت ہے۔ دس ممالک پر مشتمل ایس سی او میں چین، روس، بھارت، پاکستان اور ایران بھی شامل ہیں۔ ایس سی او کے وزرائے خارجہ کی پچیسویں سمٹ چین میں منعقد کی جا رہی ہے۔
پاکستان اور بھارت کے مابین حالیہ کشیدگی کے علاوہ ایران اور اسرائیل کے مابین تناؤکی وجہ سے اس بار اس سمٹ کو غیر معمولی اہمیت دی جا رہی ہے۔ حالیہ عرصے میں یہ علاقائی تنظیم عالمی سطح پر بھی اہمیت اختیار کر چکی ہے۔