اتنے بڑے کارنامے کے بعد بھی ثمینہ بیگ مایوس کیوں ہیں؟
17 جون 2013اکیس سالہ ثمینہ نے اپنے بھائی علی بیگ کے ہمراہ انیس مئی کو ماؤنٹ ایورسٹ سر کی تھی ۔ دونوں بہن بھائیوں کا تعلق پاکستان کے شمالی علاقہ جات کی وادئ ہنزہ کے گاؤں شمشال سے ہے۔ پاکستان میں سیاحت کے فروغ کے لیے قائم ادارے پاکستان ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن (پی ٹی ڈی سی) نے اختتام ہفتہ پر اسلام آباد میں ثمینہ اور ان کے بھائی علی کے اعزاز میں ایک مختصر سی استقبالیہ تقریب کا اختتام کیا۔
اس تقریب میں شرکت کے بعد ڈوئچے ویلے کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں ثمینہ بیگ کا کہنا تھا کہ ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنا ان کے لیے ایسا ہی تھا جیسے کہ ایک خواب حقیت کا روپ دھار لے۔ انہوں نے کہا کہ اس مہم سے قبل وہ ایک لمبے عرصے تک تیاری کرتی رہی تھیں ۔
ثمینہ کا کہنا تھا کہ ان کی اس مہم کا مقصد صرف اپنی ذات کے لیے کچھ حاصل کرنا نہیں بلکہ دنیا کو پاکستانی خواتین کی ہمت اور عزم وحوصلے سے آگاہ کرنا تھ-ا
تاہم ثمینہ کو گلہ ہے کہ اس کامیابی پر جس پذیرائی کی انہیں توقع تھی وہ پوری نہیں ہو سکی۔ انہوں نے کہا کہ’’ پاکستانی عوام کی طرف سے اتنا رسپانس نہیں ملا ۔گلگت بلتستان کے وزیر اعظم ہمارے استقبال کے لے آئے تھےاور صدر مملکت سے ہماری ملاقات ہوئی۔ باقی جو توقعات تھیں وہ پوری نہیں ہوئیں۔ لیکن ہم نے جو بھی کیا وہ اپنے ملک کے لیے کیا اور اس پر خوش ہیں‘‘۔
ثمینہ کے بھائی اور پیشے کے لحاظ سے ماؤنٹین گائیڈ انتیس سالہ علی بیگ کا کہنا ہے کہ کہ انہوں نے اپنی بہن کے ہمراہ ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کے منصوبے پر سات سال کام کیا۔ ایک پسماندہ علاقے سے تعلق ہونے کی وجہ سے انہیں بے شمار مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ لیکن علی بیگ کے مطابق مقصد کے حصول کی دھن اور جنون نے کوئی مشکل آڑے نہ آنے دی اور بلآخر انہوں نے اپنی منزل پا لی۔
ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کی مہم کے لیے اخراجات کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں علی بیگ نے کہا کہ’’ہر کھیل مہنگا ہے۔ ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرنے کی ہماری مہم پر ایک کروڑ روپے پاکستانی خرچ ہوئےہیں۔ اور یہ رقم ہمیں پاکستانی حکومت سے نہیں ملی۔ میرے گیر ملکی دوستوں نے نیوزی لینڈ سے ذاتی حثیت میں مدد کی۔ پاکستان سے صرف ڈاکٹر امجد نے ہمیں کوہ پیمائی کے دوران استعمال ہونے والی ادویات مہیا کیں‘‘۔
اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کے حوالے سے ثمینہ بیگ کا کہنا ہے کہ اب ان کا ہدف اپنے بھائی کے ہمراہ سات براعظموں کی سات بلند ترین چوٹیوں کو سر کرنا ہےجسے ’’سیون سمٹ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ تاہم ثمینہ کے بقول ان کے سامنے اس وقت سب سے بڑا مسئلہ مالی وسائل کی دستیابی ہی ہے۔ اس کے علاوہ ثمینہ بیگ اور ان کے بھائی نے سال دوہزار دس سے’’یوتھ آؤٹ ریچ‘‘ نامی ایک این جی اوقائم کر رکھی ہے اور ثمینہ فلاح و بہبود کے کاموں کو مزید وسعت دینا چاہتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’ کوشش ہے کہ مہم جوئی کے کھیلوں کو فروغ دیں۔ مہم جوئی کے زریعے نوجوانوں کو تعلیم دیں۔اور خواتین کو با اختیار بنانے کے لیے کام کریں تو اس سلسے میں ایک ادارہ بنانے کا ارادہ ہےجس کے ذریعے کھیل کو فرغ دیں گے اور نوجونوں کو آگاہی مہیا کریں گے‘‘۔
مرزا علی بیگ کے مطابق انہیں’’ سیون سمٹ ‘‘ نامی مہم کی تکمیل کے لیے کم از کم ایک کروڑ دس لاکھ پاکستانی روپےکی ضرورت ہے۔ مہم جو بہن بھائی کی جوڑی کو ان کی آئندہ مہم کے لیے حکومت سے کیا مدد مل سکتی ہے اس بارے میں ایک سوال پر پی ٹی ڈی سی کے سربراہ میر باز کھتران نے دوئچے ویلے کو بتایا کہ’’ حکومت پاکستان کے پاس یکمشت اتنے فنڈز نہیں ہوتے ہیں۔ لیکن یہ ہے کہ ہم اس میں ان کے ساتھ مل کر اپنی قوم اور مخیر حضرات، تاجروں اور سیاحت کے کاروبار سے وابستہ افراد کے ذریعے یہ ہدف حاصل کرنے میں مدد کریں گے۔ اور یہ کوئی اتنا بڑا ہدف نہیں ہے کہ پاکستانی قوم اس کو پورا نہیں کرے گی۔ اس کے لیے قوم سے اپیل بھی کرنی پڑی تو کریں گے‘‘۔
رپورٹ: شکور رحیم اسلام آباد
ادارت: عدنان اسحاق